کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 39
طاق نسیاں پر رکھ دی گئیں ، سورج کی پرستش چاروں طرف لازمی قرار دی گئی، آگ، پانی، درخت اور گائے کو پوجنا جائز ٹھہرا، اکبر ہر روز خود صبح اُٹھ کر سورج کی پرستش کرتا، اس کے بعد مشتاقانِ دید کے لئے دیوانِ عام میں آبیٹھتا تھا، لوگ شہنشاہ کے لئے سجدہ تعظیمی بجا لاتے جسے اس وقت کے دین فروش ملاؤں نے جائز قرار دیدیا تھا۔ اس کے برعکس اسلامی شعائر کو درخور اعتنانہ سمجھا گیا اور بادشاہ کو یہ بتلا دیا گیا کہ دین اسلام ایک ہزار سال گزر جانے کے بعد نعوذ باللہ بالکل اسی طرح بے کار اور ناکارہ ہو گیا ہے، جس طرح کہ اسلام سے پہلے کے مذاہب اقتدار زمانہ کے ہاتھوں معطل ہو چکے ہیں ۔ [1] ہندو عورتوں سے شادیاں کر لینے کے بعد اکبر کے دِل میں ہندوؤں کے لئے نرم گوشہ پیدا ہو گیا تھا۔ حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر ہندو فائز تھے، اپنے اقتدار اور شاہ وقت کی نظر عنایت نے انہیں اس قدر دلیر کر دیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی ہر آن ہر لمحہ دل آزاری کرتے، مسجدیں شہید کر کے وہاں مندر بنائے گئے، ہندوؤں کے برت کا دن آتا تو مسلمانوں کو دن میں کھانے پینے سے حکماً روک دیا جاتا، انہیں حکم ہوتا کہ ان کے چولہوں میں آگ نہ جلے لیکن جب رمضان المبارک آتا تو ہندو سرِ عام کھاتے، رمضان کی عزت و حرمت کی حفاظت کے لئے بادشاہ کوئی فرمان جاری نہ کرتا تھا۔ دین کے لئے یہ کوئی کم فتنہ انگیز بات نہیں کہ شاہِ وقت گمراہ ہو جائے لیکن اگر بادشاہ وقت کے ساتھ ساتھ دین کے نام لیوا بھی اس کے ہاتھ پر بِک جائیں تو پھر دین کا خدا ہی محافظ ہوتا ہے۔ اکبری عہد میں یہ سب کچھ ہوا، بہت سے علما اور فضلا نے بھی طاقت کو سجدہ جائز قرار دیا۔ جو زبانیں کبھی دین اسلام کی عظمت اور اس کی سر بلندی کے لئے وا ہوتی تھیں وہ گنگ ہو چکی تھیں ، صوفیا کا طبقہ۔۔۔ جو لوگوں کے تزکیہ نفس کی خدمت سر انجام دیتا ہے۔۔۔۔ بھی اپنے اصل مشن کو چھوڑ کر شاہی دستر خوان سے تن پروری میں مصروف تھا۔ غرضیکہ حالات اس حد تک ناساز گار تھے کہ دین کے پنپنے کی کوئی اُمید نظر نہ آتی تھی۔ مگر ہمیشہ یہ ہوا کہ جب بھی دین اسلام پر کوئی آزمائش کا وقت آیا رحمتِ حق میں ارتعاش
[1] آج پھر بھی مادہ پرست اور لادین ترقی پسند اسی کج روز ذہنیت کے باعث اسلامی نظام حکومت کو رجعت پسندی سے تعبیر کرتے ہیں ۔