کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 38
دینِ اسلام کی صداقت و عظمت کا وہ چراغ جو ایک ہزار سال سے روشن تھا، شاہ وقت، علمائے سوء، اور جاہل صوفیوں کے ہاتھوں میں ٹمٹمانے لگا۔ دین اسلام کی حالت زار جو شہنشاہ اکبر اور اس کے بعد جہانگیر کے ہاتھوں رہی تھی۔ اس کی طرف حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے اپنے ایک خط میں جو انہوں نے جہانگیر کے ایک مقرب کو لکھا، یوں بیان فرمائی: ’’اسلام کی بے کسی کا یہ حال ہے کہ کفار کھلم کھلا اس پر طعن توڑتے ہیں اور اسلام کے نام لیواؤں کی مذمت کرتے ہیں ۔ وہ ہر کوچہ و بازار میں بے خوف و خطر کفر کے احکام جاری کرتے اور کفار کی مدح و ستائش کرتے ہیں ، مسلمان اسلامی احکام کی بجا آوری سے قاصر اور شریعت محمدیہ پر عمل پیرا ہونے سے عاجز ہیں ۔‘‘ پھر ایک ہی شعر کے ذریعے سے اسلام کی کس مپرسی کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں : ؎ پری نہفتہ رو و دیو در کرشمہ و ناز بسوخت عقلم زحیرت کہ این چہ بو العجبی است؟ ’’پری (شرافت و نجابت کا نشان یعنی اسلام) منہ چھپائے ہوئے ہے اور دیو (استبداد و گمراہی) ناز و انداز دکھا رہا ہے۔ اس بو العجبی پر میری عقل حیرت و استعجاب سے جل کر راکھ ہو گئی ہے۔‘‘ حضرت مجدد اس شعر کے بعد فرماتے ہیں :۔ ’’سُبْحَانَ اللّٰه وبحَمْدِہ، اَلشَّرْعُ تَحْتَ السُّیُوْفِ شرع کی تجدید تلواروں کے سائے میں بھی کی جاتی ہے اور دین کی عظمت بادشاہوں کے طرزِ عمل پر منحصر ہوئی ہے، لیکن اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔ افسوس صد افسوس! ’’النَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِہِمْ‘‘ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین کو جلد اپنا لیتے ہیں اور تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ اکبر نے جس دین کی بنیاد رکھی اور جس عقیدہ و عمل کی نیو استوار کی رعایا نے بھی اس کو اختیار کر لیا۔ ملا مبارک ناگوری اور اس کے دونوں بیٹوں ابو الفضل اور فیضی نے اسلام میں ایسی ایسی بدعتیں ایجاد کیں کہ اس کا لیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ ’’دین الٰہی‘‘ کو رعایا کے تمام طبقوں کے لئے قابلِ قبول بنانے کے لئے عقیدۂ توحید میں اس قدر ترمیم کی گئی کہ ہندوؤں کی بت پرستی، مجوسیوں کی آتش پرستی اور دیدوں میں بیان کردہ دو رازکار فلسفیانہ موشگافیوں کو نئے دین میں سمیٹ لیا گیا ہے، اس طرح اکبر کا دینِ الٰہی مختلف مذاہب کے عقائد و خیالات کا ایک ملغوبہ بن گیا۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو دین کی اصل بنیاد تھی، وہ