کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 36
اصل میں اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ فرما رہے ہیں کہ اس دنیا میں تو ایسا ہوتا ہے کہ باپ کی محنت کا پھل بیٹے کو ملے اور بیٹے کی کوشش سے باپ کو آرام پہنچے۔ لیکن آخرت میں ایسا نہ ہو سکے گا۔ اس دنیا میں ایک نیک انسان اپنے کافر بیٹے کو بھی آرام سے رکھ سکتا ہے، کھلا پلا سکتا ہے۔ لیکن قیامت کو ایک پیغمبر اپنے کافر بیٹے کو کچھ بھی فائدہ نہ پہنچا سکے گا۔ نہ خاوند کی کوشش کا فائدہ بیوی کو پہنچ سکتا ہے وہاں ہر شخص کے ذاتی اعمال کام آئیں گے۔ نہ کسی کی نیکی کا انعام غیر کو دیا جائے گا نہ کسی کی خطا پر دوسرے کو پکڑا جائیگا۔ مسعود صاحب کی قرآن میں معنوی تحریف ایک شرمناک فعل ہے۔ یہودی، کتاب اللہ میں تحریف کیا کرتے تھے۔ ان کے متعلق ہی قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :۔ فَبِمَا نَقْضِھِمْ مّیثْاقَھُمْ لَعَنّٰھُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃً یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہ ونَسُوْا حَظَّاً مِمَّا ذُکِّرُوْا بہ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَائِنَۃٍ مِّنْھُم۔ (الآیۃ) (۱۳، ۶) ترجمہ:’’صرف ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور کر دیا اور ہم نے ان کے قلوب کو سخت کردیا وہ لوگ کلام کو اس کے مواقع سے بدلتے ہیں اور وہ لوگ جو کچھ ان کو نصیحت کی گئی تھی اس میں سے ایک بڑا حصہ فوت کر بیٹھے۔ اور آپ کو آئے دِن کسی نہ کسی نئی خیانت کی اطلاع ہوتی رہیگی جو اُن سے صادر ہوتی ہے۔‘‘ (مسلسل)