کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 35
اگر مسعود صاحب کی یہ بات مان لی جائے کہ لیس للانسان الا ما سعی دُنیا کے لئے ہے تو وراثت کی تمام آیات اور احکام کی تنسیخ لازم آتی ہے، کیونکہ ایک شخص کو والدین یا دیگر رشتہ داروں سے وراثت میں جو حصہ ملتا ہے اس میں وراثت پانے والے کی کوشش کو کچھ دخل نہیں ہوتا، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی کا دور کا رشتہ دار غیر ممالک میں لاولد بہت سی جائیداد چھوڑ کر مر جاتا ہے اور وہ اس کے کسی ایسے رشتہ دار کو مل جاتی ہے جس کو اس نے تمام عمر بھی نہیں دیکھا ہوتا۔ کسی قسم کی سعی کا بھلا کیا ذکر۔ ایسے واقعات نادر نہیں ۔ دراصل یہ سب کمیونسٹ مینی فیسٹو صفحہ ۷۳ شرط نمبر ۳ کی وجہ سے کہا جاتا ہے جس میں کہ لکھا ہے (Abolition of all rights of inheritance) یعنی وراثت کے تمام حقوق کا خاتمہ۔ اس شرط پر مکمل طور پر روس میں بھی آج تک عمل نہیں ہو سکا، لیکن پاکستان کے کمیونسٹ ابھی سے ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ آئندہ کے لئے وراثت کے کل حقوق کو ختم کیا جا سکے۔[1] اور تمام ترکہ حکومت لے لیا کرے۔ اگر مسعود صاحب کی تفسیر کو تسلیم کر لیا جائے تو اسلامی فقہ کے بہت سے قوانین کالعدم ہو جاتے ہیں ۔ مثلاً ایک شخص کو اچانک دفینہ مل جاتا ہے تو شریعت کی رو سے اس کا پانچواں حصہ حکومت کو دینے کے بعد سارا مال اس شخص کو مل جائے گا۔ حالانکہ یہ مال اس کو بغیر سعی کے ملا۔ اس دنیا پر یہ آیت تو پوری اُترتی ہی نہیں ، ہم دیکھتے ہیں کہ سعی خاوند کرتا ہے اور فائدہ اس کے بیوی بچے اُٹھاتے ہیں ۔ ایک گھر میں صرف خاوند کی سعی سے اتنی دولت آجاتی ہے کہ بیوی سارا دِن آرام کرتی ہے اور خوب عیش میں گزارتی ہے۔ دوسرے گھر خاوند، بیوی ونوں مل کر کماتے ہیں لیکن پہلے گھر کی نسبت بہت کم آمدن رکھتے ہیں اور وہ فراغت میسر نہیں ہوتی۔
[1] اس کے لیے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مال میں وراثت نہیں چلی تو دوسروں کے مال میں بھی نہ چلنی چاہیے ۔جب نبی کا کوئی وارث نہیں تو افضل بات یہی ہے کہ دوسرے کسی شخص کا بھی وارث قرار نہ دیا جائے ۔