کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 34
معنوی کر کے مارکس کے خیالات کو قرآن کے نام سے پیش کر دیا، تاکہ ان کی ’’مسلمانی‘‘ بھی قائم رہے یا کم از کم عوام میں ان کے معلق یہ تاثر نہ پھیلے کہ وہ مارکسی خیالات کے حامی ہیں ۔ اسے کہتے ہیں ، سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ؎ رند کے رند رہے اور ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی آگے جا کر مسعود صاحب نے پھر یہ قرآنی الفاظ لیس للانسان الا ما سعی لکھے ہیں اور اس آیت کے بھی پہلے الفاظ اُڑا دیئے ہیں تاکہ اپنی مرضی کے معنی پہنائے جا سکیں ۔ مزید یہ کہ سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے اس کی معنوی تحریف بھی کی ہے۔ اصل عبارت اور ترجمہ یوں ہے:۔ اَلَّا تَزِرُوَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ہ وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانَ اِلَّا مَا سَعٰی ہ واَنّ سَعْیَہ سَوْفَ یُریٰ ہ ثُمُّ یُجْزٰہُ الجَزَآئَ الاوفٰی ہ ترجمہ: ’’کوئی شخص کسی کا گناہ اپنے اوپر نہیں لے سکتا اور یہ کہ انسان کو (ایمان کے بارے میں ) صرف اپنی ہی کمائی ملے گی (یعنی کسی دوسرے کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا) اور یہ کہ انسان کی سعی بہت جلد دیکھی جائے گی پھر اس کو پورا بدلہ دیا جائے گا۔‘‘ (ملاحظہ ہو ترجمہ و مختصر تفسیر مولانا اشرف علی مطبوعہ تاج کمپنی) مندرجہ بالا آیات کی یہ تشریح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے لے کر اب تک سب مفسرین کرتے آرہے ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کی تفسیر الگ سے چھپ گئی اور دیکھی جا سکتی ہے اور اس میں صرف قیامت کا ذکر ہے۔[1] اگر مسعود صاحب کی یہ بات مان لی جائے کہ لیس للانسان الا ما سعی دنیا کے لئے ہے تو وراثت کی تمام آیات اور احکام کی تنسیخ آلازم آتی ہے۔
[1] تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں :۔ ( وان لیس للانسان ) یوم القیامۃ ( الا ماسعی ) الا ما عمل من الخیر والشرفی الدنیا ۔ ترجمہ : ( اور بے شک انسان کے لیے نہیں ) روز قیامت کے ( سوائے اس کی کوشش کے ) سوائے جو اچھا برا عمل دنیا میں اس نے کیا ۔( صفحہ 333 تنویر المقیاس من تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ ، مطبوعہ مصر 1951ء)