کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 32
خود آیات کے سیاق و سباق سے ظاہر ہو رہا ہے کہ یہاں کیا گفتگو ہو رہی ہے۔ پہلے کبائرِ گناہوں کا ذِکر ہوا، اس کے بعد صغیرہ کی معافی کا پھر عورتوں اور مردوں کے ثواب کمانے کا ذِکر ہوا کہ مرد و عورت میں کچھ وہبی فضائل کی کمی بیشی ضرور ہے جس میں کس کا کوئی دخل نہیں ، جیسے مرد ہونا اور مرد میت کی جو چند خصوصیات ہیں ، اس کی خواہش فضول ہے کیونکہ کوئی عورت خواہش اور کوشش سے مرد نہیں بن سکتی، البتہ اعمالِ نیک کے ثواب میں مرد و عورت یکساں ہیں اور اس میں وہ اپنی ریاضت اور محنت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ثواب کما سکتی ہیں ۔ امام رازی رحمہ اللہ نے اس کی دو تشریحات بیان کی ہیں ۔ ایک تو یہی کہ اس سے ثوابِ آخرت مراد ہے اور یہ کہ عورت کو گھر کا کام کاج کرنے، روٹی پکانے اور شوہر کی اطاعت کا بھی ثواب ملتا ہے۔
دوسری تشریح یہ کی ہے کہ اس کا مطلب میراث کا وہ حصہ ہے جو عورتوں اور مردوں کو ملتا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس قول پر اکتساب کے معنی الاصابۃ اور الاحراز کے ہوں گے۔[1] ترجیح بہرحال پہلے قول کو ہے۔
اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہاں سرے سے ملکیتِ زمین کا وہ مسئلہ زیر بحث ہی نہیں ہے جو جناب مسعود بھگوان اس سے زبردستی کشید کر رہے ہیں نہ کسی مفسر اور عالمِ دین کے ذہن میں کبھی اس کی وہ تفسیر آئی ہے جو تفسیر اس آیت کی ان صاحب نے کی ہے، جو سراسر تحریف اور دجل و تلبیس ہے لیکن ایسے لوگوں کو اس سے کیا غرض، انہیں تو اپنی مطلب بر آری سے غر ہے چاہے اس کے لئے قرآن ہی کو کیوں نہ مسخ کرنا پڑے۔ ایسے ہی ’’مجتہدوں ‘‘ کے پیش نظر اکر اقبال مرحوم نے کہا تھا۔
راہِ آبار و کہ ایں جمعیت است معنیٔ تقلید ضبطِ ملت است
ز اجتہادِ عالمانِ کم نظر اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر۔۔،
ذوقِ جعفر رضی اللہ عنہ کاوشِ رازی نمان د آبروئے ملتِ تازی نماند
[1] تفسیر امام رازی ، صفحہ 82، 83، جلد 10 مطبوعہ مصر 1938ء