کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 31
بخشی ہے، مردوں کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ثابت ہے اور عورتوں کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ثابت ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کی درخواست کیا کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتے ہیں ) (ترجمہ، مولانا تھانوی رحمہ اللہ ) مولانا ابو الکلام آزاد مذکورہ آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں : ’’البتہ اللہ نے دنیا میں ہر گروہ کو دوسرے گروہ پر خاص خاص باتوں میں مزیت دی ہے اور ایسی ہی مزیت مردوں کو بھی عورتوں پر ہے، مرد عورتوں کی ضروریاتِ معیشت کے قیام کا ذریعہ ہیں ، اس لئے سربراہی و کارفرمائی کا مقام قدرتی طور پر انہی کے لئے ہو گیا۔ عورتیں اس خیال سے دل گیر نہ ہوں کہ وہ مرد نہ ہوئیں اور مردوں کے کام ان کے حصہ میں نہ آئے۔ وہ یقین کریں کہ ان کے لئے عمل و فضیلت کی ساری راہیں کھلی ہوئی ہیں ۔‘‘ اس کے بعد فرمایا نیک عورتیں وہ ہیں جو اطاعت شعار ہوتی ہیں اور ظاہر و باطن ہر حال میں شوہروں کے مفاد کی حفاظت کرتی ہیں ۔‘‘ ہم نے مولانا آزاد کی تشریح اس لئے لکھ دی ہے کیونکہ مسعود صاحب نے اپنے انگریزی کے مضمون میں ان کا حوالہ دیا ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ مسعود صاحب کی تشریح خود ان کے پسندیدہ مفسر کے نزدیک بھی غلط ہے۔ اب ہم حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جو چوٹی کے مفسرین صحابہ میں سے ہیں ان کی تفسیر بیان کرتے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔ فقال (للرجال نصیب) ثواب (مما اکتسبوا) من الخیر (وللنسائ نصیب) ثواب (مما اکتسبن) من الخیر فی بیوتھن۔ [1] یعنی مردوں کو اس کا ثواب ملے گا جو نیکیاں وہ کمائیں گے اور عورتوں کو ثواب ملے گا ان نیکیوں کا جو وہ اپنے گھروں میں کریں گی۔‘‘ [2]
[1] تنویر المقیاس من تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ مطبوعہ مصر دیکھیے شرح آیت مذکورہ [2] سیاق سباق سے یہی تفسیر درست ہے اگرچہ تنویر المقیاس کا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر ہونا ثابت شدہ نہیں ہے ( ادارہ )