کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 28
کیا ہو سکتی ہے؟ اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو پھر صاف الفاظ میں کہنا چاہئے کہ اسلام سرے سے قابلِ عمل مذہب ہی نہیں ہے، جب قرآن پر اس وقت بھی عمل نہیں کیا گیا جب مسلمان دنیا میں حکمران تھے، صحابۂ کرام کے ہاتھ میں زمامِ اقتدار تھی اور ان کی تہذیب و ثقافت روز افزوں وُسعت پذیر تھی تو پھر قرآن پر عمل کرنا ممکن ہی کہاں ہے؟ عجیب ستم ظریفی ہے کہ یہ لوگ اپنے معتقدات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے خود اسلام اور قرآن کو بھی ناقابلِ عمل دکھلا کر مذہب سے لوگوں کو بیزار کر رہے ہیں ، علاوہ ازیں یہ نکتہ بھی حل طلب ہے کہ جن سرمایہ داروں نے جان بوجھ کر اپنے مفادات کے مطابق قرآن کی تشریح کی، اس سے کون مراد ہے؟ وہ نرے ’’سرمایہ دار‘‘ تھے یا قرآن کے اسرار و رموز سے بھی آشنا تھے، اور تاریخ اسلام میں کچھ غیر سرمایہ دار قرآن کے عالم بھی ہوئے ہیں یا نہیں ؟ یا پوری تاریخ میں سب علما ’’سرمایہ دار‘‘ ہی گزرے ہیں کہ کسی نے بھی ان رمایہ داروں کا پول نہیں کھولا؟ اور یہ سعادت ۱۴ سو سال بعد جناب مسعود بھگوان کو ہی حاصل ہوئی؟ کیا عجیب بات ہے کہ ان لوگوں کو یہ بھی علم نہیں کہ ہماری زبان و قلم سے کیا نکل رہا ہے اور اس کا مفہوم و معنی کیا ہے؟
اِسی مسئلہ زمین پر گفتگو کرتے ہوئے جناب مسعود صاحب فرماتے ہیں :۔
’’کوئی شخص زمین پر قطعی حق ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور نہ ہی ایسے پٹہ پر دے سکتا ہے۔ قرآن ہمیں زمین سے اپنا رزق حاصل کرنے کا حق دیتا ہے، اِس لئے جو شخص بھی زمین کو اپنی محنت سے زیر کاشت لاتا ہے۔ وہی اس وقت اس کا مالک ہوتا ہے جب تک وہ اس پر کاشت کرتا ہے۔ قرآن[1] کا ارشاد اس معاملہ میں بالکل واضح ہے کہ ’’(مملکت کے ٹیکس ادا کرنے کے بعد) جو کچھ مرد وزن حاصل کریں وہ ان کا ہے۔‘‘ (حوالۂ مذکور)
[1] گویا اگر کوئی کسان بیوی اور بچے چھوڑ کر مرجائے جو خود کاشت نہ کر سکتے ہوں تو اس زمین کی ملکیت ساقط ہو جائیگی پھر زمین ایسے لوگوں کو دیدی جائیگی جو خود کاشت کر سکتے ہوں اور بیوہ اور یتیموں کو جوشرعا زمین کے مالک تھے صدقہ خیرات پر گذارہ کرنے پر مجبور کر دیا جائیگا حالانکہ بیوہ اور یتیم سے زمین کو پٹہ پر دینے کا حق چھیننا ظلم عظیم ہے جو کسی مذہب میں روا نہیں ۔