کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 27
’’مسلمانوں نے اپنی پوری تاریخ میں اِس سلسلہ میں قرآن کے اُصولوں پر عمل نہیں کیا، سرمایہ دار طبقے نے قرآن کی جان بوجھ کر ایسی تشریح کی جو ان کے مفادات کے مطابق تھی اور ان کی لوٹ کھسوٹ میں حائل نہ ہو سکتی تھی جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد شروع ہو گئی تھی۔‘‘ [1] (روزنامہ مشرق لاہور، مورخہ ۱۹ فروری ۱۹۶۸) یہاں ابتداء ہی میں مسعود صاحب نے اپنی اُس ذہنیت کا مظاہرہ کر دیا ہے جو ایسے تجدد پسند حضرات میں عام طور پر پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو ہی عقل کل سمجھتے ہیں ار اپنے مقابلے میں تاریخ اسلام کے تمام مشاہیر علما و فقہا کو یا تو نادان سمجھتے ہیں یا انہیں سرمایہ داروں اور بادشاہوں کا آلۂ کار۔ یہاں مسعود صاحب نے ایک قدم اور بڑھ کر اپنی ناوک افگنی کے لئے تاریخ اسلام کے بالکل ابتدائی دَور کو چن لیا ہے یعنی خلفائے راشدین اور صحابۂ کرام کا دَور۔ ظاہر ہے کہ مسعود صاحب جب یہ کہتے ہیں کہ ’’سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ پیغمبرِ اسلام کے وصال کے فوراً بعد شروع ہو گئی تھی‘‘ تو اس کی زد میں خلفائے راشدین سمیت تمام افراد آجاتے ہیں ۔ اسی طرح قرآن کی غلط تشریح کے جرم کے بھی یہی حضراتِ صحابہ مرتکب قرار پاتے ہیں جو قرآن کے اوّلین حامل تھے۔ سوال یہ ہے کہ جب وہی قرآن کو نہ سمجھ سکے جن کے سامنے قرآن اُترا، جن کی زبان عربی تھی اور جو براہِ راست اُس ذات سے فیض یافتہ تھے جو ذاتِ وحی و رسالت کی امین تھی تو پھر قرآن کو اور کون سمجھ سکتا ہے؟ پھر اُردو، انگریزی کی چند کتابیں پڑھنے والے سرکاری سی ایس پی افسران کا دعوائے قرآن فہمی کہاں تک قابلِ قبول ہے؟ مزید برآں صحابۂ کرام سمیت تمام مسلمانوں پر یہ الزام کہ انہوں نے اپنی پوری تاریخ میں اِس سلسلے میں قرآن پر عمل نہیں کیا، انتہائی تعجب انگیز ہے۔ اس سے زیادہ صحابۂ کرام کی اور مسلمانوں کی توہین اور
[1] مسعود صاحب کی اس قسط کی سرخی یہ ہے ’’ زمین کے تمام وسائل سب انسانوں کی مشترکہ املاک ہیں ‘‘ اس سرخی سے صاف ظاہر ہے کہ مسعود صاحب کسی کاشتکار کو مالک سمجھنے کو تیار نہیں اور صرف یہ چاہتے ہیں کہ تمام زمین حکومت کی ملکیت قرار دی جائے جو مارکس کا قول ہے اور فرعون کا عمل ہے ۔