کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 26
اِشترا کی مغالطے اور اُن کا دفعیہ
تنقیدی و تحقیقی جائزہ
نقد و نظر (محترم ریاض الحسن نوری لاہور)
چند سال قبل پنڈی میں مسلمانوں کی ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس میں دیگر اہلِ علم و فضل حضرات کے علاوہ یادش بخیر جناب مسعود صاحب نے بھی جو اس وقت محکمۂ اوقاف کے ناظمِ اعلیٰ تھے، ایک مقالہ پڑھا تھا۔ مسعود صاحب کے معتقدات ڈھکے چھپے نہیں ، وہ اشترا کی ذہن کے حامل اور تجدد پسند ہیں ۔ کئی سال ہوتے ہیں انہوں نے لاہور میں پہلی مرتبہ اردو زبان میں نمازِ عید پڑھا کر اپنے مزاج کا نمایاں اظہار کر دیا تھا۔ اس کے بعد بھی مختلف اوقات میں نظامتِ اوقاف کی کرسی پر بیٹ کر وہ اپنے اشتراکی اور تجد پسند خیالات کا اظہار کرتے آئے ہیں ۔ جس زمانے میں پنڈی میں محولہ بالا کانفرنس ہوئی اس وقت جناب مسعود صاحب کا ستارہ اوجِ ثریا پر تھا، اوقاف کے سیاہ و سفید کے وہ مالک تھے، ان کے سامنے کسی کو یارائے دم زونی نہ تھا، انہوں نے اپنا یہ مقالہ بھی وہاں منصبی تحکمیت سے پڑھنے کی کوشش کی جس میں نام قرآن کا تھا لیکن اس میں کار فرما روح مارکس کی تھی، وہاں موجود علما و فضلا نے اسی وقت ان کے خیالات سے بیزاری کا اظہار کر دیا تھا اور ان کے مقالے کے غبارے کی ساری ہَوا نکال کر رکھ دی تھی، بعد میں یہ مقالہ روزنامہ مشرق لاہور میں بالاقساط (۱۹ تا ۲۲ فروری ۱۹۶۸) شائع ہوا تھا۔ اس مقالے پر اگرچہ کانفرنس میں جزوی تنقید ہو چکی ہے لیکن اس پورے مقالے پر تنقید اور اس میں کار فرما مغالطات کی پوری توضیح کی بڑی ضرورت ہے جس پر ابھی تک کسی صاحب علم نے قلم نہیں اُٹھایا ہے۔ میں نے اپنے اِس مضمون میں اسی مقالے کا ایک تنقیدی جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ مسعود صاحب ملکیت زمین کے مسئلہ کا ذِکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔