کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 23
حدیث کے بغیر قرآن فہمی مشکل ہے
بطور نمونہ چند آیات
آپ بعض وہ آیات کریمہ ملاحظہ فرمائیں جن کی تفسیر و تشریح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام، صحابہ کرام اور تابعین علیہم الرحمۃ والرضوان کی تفسیر کے بغیر ہرگز ہرگز ممکن ہی نہیں ۔ ورنہ سوائے عقلی ڈھکوسلوں کے اور کچھ نہیں ہو گا۔ جس کا نتیجہ دنیا و آخرت میں رسوائی ہے۔ اب بتلائیے کہ ذیل کی آیات کی تفسیر کیا کی جائے؟
الصلوٰۃ الواسطی:
حَافِظُوْا عَلَی الصَّلٰواتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی (پ ۲، ۱۵)
’’محفاظت کرو سب نمازوں کی (عموماً) اور درمیان والی نماز کی (خصوصاً) ‘‘
اس درمیانی نماز (الصلوٰۃ الوسطیٰ) سے کون سی نماز مراد ہے اور کون سی نقلی دلیل جس میں قطعیت ہو۔ ورنہ عقلی دلیل توہر کوئی دے سکتا ہے اور وہ توڑی بھی جا سکتی ہے۔
الذاریات، الحاملات، الجاریات، المقسمات:
وَالذَّارِیَاتِ ذَرْوًا، فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا، فَالْجَارِیَاتِ یُسْرًا، فَالْمُقَسِّمَاتِ اَمْرًا۔ (پ ۲۶، ۲۸)
قسم ہے ان چیزوں کی جو غبار وغیرہ اُڑاتی ہیں ۔ پھر ان کی جو بوجھ اُٹھاتی ہیں ۔ پھر ان کی جو نرمی سے چلتی ہیں ۔ پھر ان کی جو چیزیں تقسیم کرتے ہیں ۔
بتائیے! یہ کیا چیزیں ہیں ، جن کی قسم اُٹھائی گئی ہے۔۔۔۔ اسی طرح وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا (پ۲۹، ۲۱) قسم ہے ان کی جو صف باندھ کر کھڑے ہوتےہیں وغیرہ آیات میں جن کی قسم کھائی گئی ہے۔ ان کی تعیین کیسے کی جائے؟