کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 21
انکار پر مصر رہتا ہے، جس پر خاوند اسے قتل کرنے کے ر پے ہو جاتا ہے مگر لوگ بیچ بچاؤ کر کے صلح کی کوشش کرتے ہیں ، چنانچہ خاوند جرمانے کی ایک شق کو معاف کر دیتا ہے، خواہ مینڈھا یا چھ ریال کوئی ایک معاف کر دیتا ہے اور دوسری چیز لے لیتا ہے، (یعنی خاوند کے ہاں بیوی کی آبرو ریزی صرف چھ ریال یا مینڈھا کے عوض برداشت کی جا سکتی ہے) ہم دور کیوں جائیں ، صحیح بخاری میں ہے ’’کہ ایک شخص کے ہاں کوئی نوکر تھا جس نے اس کی بیوی سے بدکاری کی، اس نے ایسے لوگوں سے مسئلہ پوچھا جن کے متعلق وہ گمان میں تا کہ یہ عالم ہیں ۔ انہوں نے فتویٰ یہ دیا کہ نوکر عورت کے خاوند کو [1]سو بکری دیدے جسے نوکر کے باپ نے اپنے بیٹے کی طرف سے ادا کر دیا۔ پھر اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہو کر سارا ماجرا سنایا۔ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے فیصلے کو غلط گردانا اور فرمایا کہ بکریاں نوکر کے باپ کو واپس دلائی جائیں اور نوکر کو (۱۰۰) سو درے مارے جائیں اور ایک برس کی جلا وطنی کی مزید سزا دی جائے۔ عورت کے متعلق انیس نامی ایک شخص کو (معاملے کی تحقیق کے لئے) بھیج کر فرمایا کہ اگر وہ اقبال جرم کرے تو اسے رجم کر دو۔‘‘ مدعا یہ ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کے عربوں میں بھی ایسے بربری طرز کے فیصلے پائے جاتے تھے، جنہیں اسلام نے منسوخ کر دیا۔ بشر بہر حال بشر ہے، کوئی قوم کسی دوسری قوم سے صرف اخلاقِ انبیائ اور علومِ تمدن کے زیر اثر ہی ممتاز ہو سکتی ہے، اور جس شخص کو یہ دونوں چیزیں میسر ہوں اِسے بہت بڑی سعادت نصیب ہوئی۔ قصہ کوتاہ! کہ اقوام یورپ کا عورتوں کے بارے میں بے پرواہی برتنا ان کی جدید ترقی کا نتیجہ نہیں
[1] صحیحین کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ نوکر کے باپ نے لوگوں سے پوچھا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے بیٹے کو رجم کیا جائے گا ۔ جس کے فدیہ میں اس نے ایک سو بکری اور ایک عدد لونڈی دیدی پھر اہل علم نے رجم کی بجائے سو کوڑوں اور ایک سال کی جلاوطنی کا ذکر کیا ۔ جس پر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا کہ پہلی آراء کا محاکمہ ہو سکے اور صحیح فیصلہ معلوم ہو جائے ۔ مترجم