کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 20
فروشی کو حرام دیتے ہیں اور یہ بدکار عورتوں پر نہایت سختی کرتے ہیں حتیٰ کہ وہ انہیں مکھیوں کی طرح قابل نفرین اور حقیر طبقہ خیال کرت ہیں ۔ اس صورت میں کسی فاحشہ عورت کے لئے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ شرفائ اور اصحاب مروت لوگوں سے ملاقات ھی ہو سکے، ان کی حیثیت بقول شاعر ؎ لتصعدن منی مقعد القصی منی ذی القاذورۃ المقلی ’’تو ضروری اور واجبی طور پر مجھ سے اچھی طرح ہٹ کر رہے گا، جس طرح قابل نفرت اور راندھے ہوئے لوگ دور رہتے ہیں ، ’’پھر زیر غور مسئلہ میں اقوام یورپ کا تساہل (بے پرواہی برتنا) ان کے تمدن اور ترقی کا نتیجہ نہیں ، بلکہ اس تساہل کا ان دونوں مسئلوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں یہ تو ایک عادت ہے جو انہیں زمانہ جاہلیت و نادانی کے آباؤ اجداد سے ورثے میں ملی ہے، اسی طرح بحر ابیض متوسط کے جوار میں ایسی غیر یورپین اقوام موجود ہیں جنہیں بربری کہتے ہیں جن کے ہاں اسلام کا صرف نام باقی ہے، مثلاً آبم مکیلا، آیت سخمان، اشتیرن، آیت اسحاق اور آیت ہلودی وغیرہ، یہ لوگ اپنے رنگ اور ٹھنڈے خون کی وجہ سے شمالی یورپ کے باشندوں سے ملتے جلتے ہیں ، ان میں غیرت کالعدم ہے۔ میں نے انہیں خود دیکھا ہے کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے آدمی کو اپنی بیوی کے ساتھ بدکاری کرتا ہوا دیکھ لے تو ہوائی فائر کرتا ہے۔ غرض یہ نہیں ہوتی کہ ان دونوں میں سے کسی کو گزند پہنچے بلکہ رض یہ ہوتی ہے کہ اس وقوعہ کی اطلاع عام ہو جائے۔ ہوائی فائر سن کر لوگ ہر طرف سے اُمڈ آتے ہیں ۔ خاوند کہتا ہے کہ لوگو! گواہ رہنا کہ فلاں شیخ کو میں نے اپنی بیوی کے ساتھ بدفعلی کرتے دیکھا ہے۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تیری تائید میں چشم دید واقعے کی گواہی دیں گے۔ پھر جب عام قبیلہ اکٹھا ہو جاتا ہے تو خاوند اسے عدلیہ میں لے جاتا ہے۔ جب اپنے پیشواؤں اور صاحب حیثیت لوگوں کے سامنے پیش ہو جاتا ہے تو اس پر دعویٰ دائر کر دیتا ہے، گواہ بھی آکر گواہی دے جاتے ہیں ، ان سب چیزوں کے باوجود مجرم صاف مکر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔ تو اس کے سر پر ایک طبق (تھال) رکھ دیتے ہیں جس کا مدعا یہ ہوتا ہے (اس جرم کی پاداش میں بطور جرمانہ اور سزا) خاوند کو ایک عدد مینڈھا اور چھ ریال دیدے، لیکن مجرم پھر بھی اپنے