کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 19
مطالبہ کریں جس میں نوجوان لڑکیوں کی صحیح تربیت کی ضمانت ہو، تو یہ نہایت ہی موزوں ہو گا۔ ثانی الذکر رائے کی غلطی: اس کے برعکس دوسری رائے پیش کرنے والے لوگوں نے افراط سے کام لیا ہے، اور شرعی اور اخلاقی حدود سے تجاوز کر گئے ہیں ، ہم ان کے دلائل کا بھی تجزیہ کرتے ہیں ۔ اور ان کے دماغ میں جو لا طائل اور مردود بہانے ہیں ان کا پول کھولتے ہیں ، جو مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہیں ۔ آپ کا یہ کہنا درست ہے کہ اقوام عالم دو طرح کی ہیں : کچھ ترقی پذیر اور خوش بخت ہیں اور دوسری ذلیل اور بد بخت ہیں ۔ اور آپ کا یہ قول۔۔۔ کہ بخت آور اقوام اپنی محنت اور حالات کی مساعدت سے اس مقام دشوار پر پہنچے ہیں ۔۔۔ بھی صحیح ہے لیکن یہ ایک مجمل کلام ہے، جس کی تفصیل اور وضاحت ضروری ہے، کیونکہ اسی اجمال کے بل بوتے پر آپ کو مغالطہ دینے کا موقعہ ہاتھ آیا ہے، اور اس اجمال کی تفسیر یہ ہے کہ خود اقوام یورپ (جن کو آپ ترقی پذیر سمجھتے ہیں ) کی عادات و اطوار ایک دوسری سے نہایت مختلف ہیں ، جن کی بنائ پر ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں ۔ چنانچہ کیتھولک فرقہ کا مقلد شخص کسی پروٹسٹنٹ عقیدہ والی عورت سے شادی نہیں کر سکتا اور اگر کوئی شخص ایسی جرأت کر بیٹھے تو گرجا کی طرف سے اس پر عقاب محرومیت (جسے ہمارے ہاں حصہ پانی بند کہتے ہیں ) نازل ہوتا ہے، اور یہ ایک بہت بڑی اجتماعی مصیبت ہوتی ہے، البتہ تحدید تغریر میں اختلاف ہے، حتیٰ کہ یہی سزا (بسا اوقات) بغیر کسی رو رعایت کے ایک دوسرے کی موت کا سبب بن جاتی ہے، عورتوں کے بارے میں بھی ان کے نظریات یکساں نہیں بلکہ متضاد ہیں ، چنانچہ بعض نظریات تو عورت کی نگرانی اور مکمل حفاظت کرتے ہیں ، جب کہ بعض دوسری اقوام قانونی طور پر سنِ بلوغت پر پہنچنے کے بعد اسے مطلق العنان سمجھ کر ہر طرح کی آزادی دے دیتے ہیں اور بعض قومیں مثلاً تینوں اس منطق کا سہارا لے کر کہ معاشرے کی خرابی ایک ہی جگہ پر منحصر رہے اور سارا معاشرہ گندا نہ ہوا ایک متعین اور محدود مقام کے لئے عصمت فروشی کو قانونی طور پر جائز قرار دیتے ہیں ، یہ لوگ کسبیوں کے ساتھ کچھ نرمی کا سلوک کرتے ہیں اور بعض قومیں مثلاً جرمن اور برطانوی ایسی بھی ہیں جو قانونی عصمت