کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 18
ہیں جنہیں اچھے برے ہر مقام میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ رہا سورۂ نورہ کی تعلیم، تو یہ اخلاق و آداب سکھانے کا بہترین گر ہے، یہ بیش قیمت ذخیرہ اور بہت بڑا خزانہ ہے، لیکن نوجوان لڑکی کو چاہئے کہ قرآن مجید کی دوسری سورتوں کی علیم سے بھی غافل نہ ہو، پھر تعلیم قرآن قرأت کے بغیر ناممکن ہے، جو معرفت معانی اور مفاہیم کے بغیر نتیجہ خیز نہیں اور یہ (یعنی معانی و تفسیر) صرف، نحو اور لغت کے علوم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے، جنہیں حاصل کرنے کے لئے پڑھنا لکھنا سیکھنا ضروری ہے، جس سے تم نے منع کیا تھا۔ اور یہ تناقض ہے جس کا تمہیں احساس بھی نہیں ایسے ہی لوگوں کے لئے شاعر نے کہا ہے: یصیب وما یدری ویخطی وما دری وکیف یکون النوک الاکذالکا! ترجمہ: (صحیح کرے تو بھی ناواقفیت میں ، غلط کرے تو بھی لاعلمی میں جہالت اور بیوقوفی اسی کا نام ہے۔) تکلہ کی تعلیم یہ چیز تو اچھی ہے، لیکن معاشرہ میں اس سے زیادہ اہمیت کم از کم امور خانہ داری اصول حفظان صحت اور تیمار داری وغیرہ کو حاصل ہے۔ آپ کا یہ کہنا بجا ہے کہ نوجوان لڑکی اِس زمانے میں اگر خواندہ ہو تو مخرب الاخلاق اخبارات اور رسائل پڑھ کر مختلف قسم کی بری چیزیں اس کے ذہن میں سرایت کر جاتی ہیں ، لیکن ان پڑھ عورت کو بھی ایسی واقفیت سینما بینی سے حاصل ہو سکتی ہے، خواہ اپنے نگران کی غیر حاضری سے فائدہ اُٹھا کر ایک ہی فرصت میں حاصل کر سکے۔ یہی خبریں اسے ریڈیو کے ذریعے بھی پہنچ سکتی ہیں ، اسی طرح یہی خیالات مہمان خواتین کی آمدورفت اور گفت و شنید سے بھی پیدا ہو سکتے ہیں ، جب فضا ہی خراب ہو جائے تو عزلت پسند کو اس کی علیحدگی فائدہ نہیں دے گی۔ دراصل کرنے کا کام جو ہے وہ یہ ہے کہ تعلیم نسواں کی کلیۃً مخالفت کی بجائے ان کے موجودہ نصاب تعلیم پر تنقید کر کے اور اصلاحی تجاویز پیش کر کے حکومت سے ایسے مکمل نصاب تعلیم کے نفاذ کا