کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 17
دشمنانِ اسلام ذلت اور شکست سے دو چار تھے۔
ہاں تمہارے وہ متأخرین آباؤ اجداد جن کے اتباع میں تم اپنی عورتوں کو جہالت کے اندھیروں میں رکھنا چاہتے ہو، وہ کبھی بھی اتباع کے اہل نہیں تھے، کیونکہ ان کا زمانہ جہالت کا دوسرا دور تھا، اور آج اسلام جن مصائب سے دو چار ہے وہ ان ہی کی کرم فرمائیوں کا نتیجہ ہے، اس کے باوجود ہم یہ بات تسلیم کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں کہ تمہارے آباؤ اجداد میں اہل علم حضرات بھی ایسی نکمی باتیں کیا کرتے تھے اور یہ تسلیم کیونکر کریں کیونکہ ان کے دور میں بھی ادیب اور عالم عورتیں اگرچہ تعداد میں بہت کم تھیں لیکن خیر و برکت کا وجود بالکل عنقائ نہیں تھا۔ تمہارا یہ مزعومہ کہ قلم بھی ایک زبان ہے اور جب عورت اس زبان سے ناواقف ہو، اور سخت قسم کے پردے میں ملبوس رہے تو ہر دو زبان کے شر سے محفوظ رہے گی، تو یہ سخت غلطی ہے، کیا آپ اس بات سے ناواقف ہیں کہ جس عورت کی تربیت غلط ہو خواہ وہ گونگی بہری ہی کیوں نہ ہو اور کسی ڈبیہ میں ہی بند کیوں نہ ہو اس کی حفاظت نا ممکن ہو جاتی ہے لیکن جو لڑکی عفت اور پاکدامنی میں پروان چڑھتی ہو وہ پردوں میں رہ کر بھی بغیر کسی شک و شبہ کے برائی سے بچ جاتی ہے، چنانچہ خواتین (غلبۂ اسلام کے دور میں ) میدانِ جنگ میں اپنے مردوں کے ساتھ ہوتیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی ازواجِ مطہرات بھی غزوات اور حج میں ہم سفر ہوتیں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیگمات اپنے گھروں کی چار دیواری میں ہی پردہ نشین ہو کر ہی نہ بیٹھی رہتیں بلکہ ضرورت پڑنے پر گھروں سے باہر آجاتیں ، گھوڑوں کو چارہ ڈالتیں ، اپنی ملکیت میں محنت کرتیں ، اور عورتیں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بعد بھی جنگوں میں شریک ہوئیں ، یہ سب کچھ کتب حدیث میں مذکور ہے، جنہیں ذکر کر کے مضمون کو طول نہیں دینا چاہئے اور یہ تمام امور ان عورتوں کے پختہ ایمان اور کمال عفت کی وجہ سے ان کے لئے نقصان دہ نہ ہوئے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ صرف تعلیم نہ تو عورت کو نیک بناتی ہے اور نہ ہی برائی کی طرف رغبت دیتی ہے۔ اگر وہ خود نیک ہوئی تو یہ تعلیم اس کو نیکی کے ہتھیاروں سے مسلح کر دے گی۔ اور اگر اس کی تربیت غلط ہوئی تو تعلیم کے بعد اور بگڑ جائیں گے، کیونکہ خواندگی اور لکھنے کا ڈھنگ ایک آلہ کی حیثیت رکھتے