کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 16
تو ان قوموں کے طرزِ عمل کو ہی اپنائیں گے اور ہر معاملہ میں ان ہی کی تقلید کریں گے۔
تیسری رائے:
یہ رائے پہلی دونوں آرائ کے بین بین ہے، یہ رائے پچھلی دونوں رایوں کے نقائص اور غلطیوں سے پاک اور ان کی خوبیوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے، اور یہ اس طرح کہ اولاً ان کی ایسی تعلیم سے انکار نہیں کیا جا سکتا جن سے عورت امور خانہ داری، گھریلو سہولتوں او ان کے انتظام سے واقفیت اور نیک بچے اور بچیوں کے لئے ایک نیک ماں بننے کی صلاحیت سے متصف اور بہرہ مند ہو سکے۔ ثانیاً جس سے عورت زندگی کے تمام شعبوں میں ، خواہ وہ معاش سے متعلق ہوں ، حرب و ضرب سے یا طبیعات سے ہر شعبۂ حیات میں مرد کی مد اور معاون ثابت ہوں ۔
تیسری رائے رکھنے والوں کی نظر میں ، پہلی رائے کے قائل افراط میں مبتلائ ہیں جبکہ دوسری رائے رکھنے والے تفریط کا شکار ہیں اور یہ دونوں ہی قابل نقد و جرح ہیں ابھی پہلی رائے کا حال سنئے۔
اَوّل الذکر رائے کی غلطی:
آپ کا عورت کو تعلیم سے بالکل منع کر دینا یا صرف سادہ قرآن مجید کی تعلیم تک محدود رکھنا جادۂ مستقیم سے بہت دور ہے، کیونکہ یہ نہ تو اسلامی رائے ہے اور نہ ہی یہ عقل اور سائنس کا تقاضا ہے، خواہ تم اس اسلام کا نام دیتے رہو اور اسی پر تفریعات (فروعی مسائل) پیدا کرتے رہو (یہ اسلامی نہیں ہو سکتی) حتیٰ کہ آپ نے (اپنی رائے کو مضبوط کرنے کے لئے) محدثین کے نزدیک ایک کمزور ترین اور ساقط الاعتبار حدیث سے حجت پکڑی یہ تو بلحاظِ روایت ہے، اور اگر سند سے قطع نر صرف معنی کی طرف غور کریں تو وہ بھی اس حدیث کے بطلان کا غماز ہے، کیونکہ ازواج مطہرات امہات المؤمنین بھی خواندہ تھیں ، ان کے علاوہ اور بھی کئی صحابیات تابعیات اسی طرح وہ محدثات و حافظات خواتین ۔۔۔ جن سے محدثین کرام روایات اخذ کرتے تھے۔ بھی لکھنا پڑھنا جانتی تھیں حتیٰ کہ کتب اسمائ الرجال (وہ کتابیں جن میں حدیث کے راویوں کے حالات زندگی پر تبصرہ ہوتا ہے) مثلاً تہذیب التہذیب، میزان الاعتدال، لسان المیزان، خلاصہ تذہیب الکمال اور ان سے پہلے طبقات ابن سعد اور کئی دوسری کتب تاریخ و رجال میں بے شمار عالم، فقیہ اور ادیب عورتوں کے حالات زندگی درج میں ۔ اور یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ چار دانگ عالم میں اسلامی عظمت کا ڈنکا بج رہا تھا اور