کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 15
میں زندہ رہ سکتی ہے جس کا نصف تو بالکل مردہ ہو اور باقی جہالت اور پستی کی وجہ سے بالکل ناکارہ ہو حالانکہ یہ امر مسلمہ ہے کہ ترقی ناقابلِ تقسیم ہے، یا تو ماں ، باپ اور اولاد سب ترقی یافتہ ہوں اور یا پھر سب ذلت اور رسوائی کی زندگی بسر کر رہے ہوں ، کیا کبھی ایسی قوم بھی سننے میں آئی ہے کہ مرد تو شائستہ اور مہذب ہوں ، لیکن عورتیں جہالت، وحشت اور بددیت کی زندگی بسر کر رہی ہوں ۔
اور کیا وجہ ہے کہ عورت حکمران، ملکہ، صدر مملکت، وکیل، نوابوں کی مجلس کی نائب اور پبلک کے ذمہ دار اور صاحب حیثیت لوگوں کی سربراہ نہیں بن سکتی؟ کیا ان تمام امور کے انتظام کا دارومدار عقل و تدبر اور فہم و فراست پر نہیں ؟ کیا آپ لوگ اتنے دلیر ہیں کہ عورت کو عقل و فہم اور سوچ بچار سے کلیۃً عاری سمجھتے ہیں اور آپ کے نزدیک اس کا کام ڈھور ڈنگر کی طرح صرف افزائش نسل ہے۔ اگر تمہار یہی خیالات ہیں تو تم نے اپنی ہی ماؤں کو نہایت ذلیل و خوار کیا۔
مجھے اپنی عمر کی قسم ہے کہ ایسے خیالات کا نتیجہ ماسوائے اس کے کچھ نہیں ہو گا کہ قوموں کو اوج ترقی سے ذلت کے گڑھے میں پھینک کر ان پر سستی او کاہلی کی چادر پھیلا دیں ۔ اسی پر ہی اکتفا نہیں بلکہ قوموں کو جہالت اور دیوانگی کے قبرستان میں دفن کر دیں ۔
کئی لاکھ عورتیں آخری جنگ عظیم میں شریک ہوئیں ۔ اگر تمہاری اس بری رائے کو من و عن تسلیم کر لیا جائے تو کوئی ایک عورت بھی ایسی نہ ملے گی جو کہ گھروں کے قبرستانوں سے نکل کر وطن کے دفاع میں ایک تیر تک چلا سکے۔
اور جو تم نے عفت و عصمت کی رٹ لگا رکھی ہے تو یہ صرف ایک عادت ہے اور عادتیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں ، اگرچہ زمانۂ ماضی میں اس پاک دامنی کا اعتبار تھا لیکن آج اس کی حیثیت مذاق اور تمسخر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، مطلق العنان حکومتیں اور دنیاوی جاہ و جلال سے بہرہ مند ملکوں میں تمام شریف لوگ جن میں فلسفی، عالم، امیر اور وزیر شامل ہیں ۔ وہ ایسے معاملات کی ہرگز پرواہ نہیں کرتے اور نہ ہی ایسی باتوں کا محاسبہ کرتے ہیں ، ان کا طرزِ عمل یہی ہے کہ لڑکی جب سن بلوغت کو پہنچ جائے تو وہ اپنے نفس کی خود مختار ہے، جو چاہے کرے، جس سے چاہے تعلقات پیدا کرے دن رات اکیلی پھرے ہم