کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 14
دوسری رائے:
عورتوں کو انگریزی تہذیب کے دعویداروں کے طریقۂ تعلیم کے مطابق تعلیم دی جائے، ان کا کہنا ہے کہ ہمیں زیادہ قیل و قال اور فضول جھگڑوں میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں دنیا میں بعض قومیں اوج ترقی پر فائز ہیں اور خوش قسمتی ان کے قدم چومتی ہے جب کہ کئی دوسری قومیں ذلت، پستی، غلامی اور بد بختی سے دو چار ہیں ، غور کرنے سے معلوم ہوا کہ ان کی خوش قسمتی اور ان کی بد قسمتی کا سبب محنت اور مال ہے جس کی بنائ پر ہم تہیہ کر چکے ہیں ، کہ ترقی یافتہ قوموں کی تقلید کریں تاکہ ہمیں وہی مقام حاصل ہو جائے، ہم درس و تدریس میں ، تعلیم و تربیت میں ، اندازِ فکر، لباس، معاشرہ اور نظامِ دستور میں غرضیکہ ہر معاملہ میں ان کے نقش قدم پر چلیں گے اور اسی ضمن میں تعلیم نسواں ، عورتوں کی آزادی اور ہر ممکن معاملہ میں بلا قید و بند مرد عورت کے حقوق کی مساوات بھی ہے، ہمارا اسی پر ایمان ہے اور اس کی تنفیذ کے لئے کوشاں ہیں ۔
لیکن تمہارا یہ کہنا کہ عورتیں اپنے گھروں میں دفن رہیں ، انہیں اپنے مال و متاع اور ضروریاتِ زندگی میں کسی قسم کا تصرف کا حق نہ ہو حتیٰ کہ کھلی فضائ میں سانس تک نہ ل سکیں اور ضرورت پڑنے پر گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں اسے دیکھنے سے روک دینا۔ پھر تم نے یہاں تک غلو کیا کہ اس کی آواز کو بھی موجب شرم قرار دیا۔ اس کا حق وراثت مرد کی نسبت ناقص یعنی آدھا قرار دیا لیکن اے کاش، اس کا نصف بھی تو سالم رہ جاتا کہ اس پر پردہ نشینی لازم اور لابدی قرار دی گئی تو اس کے خارجی امور کا نگران، اس کا بھائی، باپ اور چچازاد ٹھہرا، تو یوں سمجھو کہ آپ کا عطا کردہ نصف بھی ہضم ہو گیا اس لئے کہ بسا اوقات یہی قریبی رشتہ دار از خود اس کے مال پر ناگ بن جاتا ہے اور سب کچھ غصب کر کے کھا جاتا ہے، لیکن عورت، تو وہ بوجہ حجاب اپنے جائز حق کو تلف ہوتے دیکھ کر بھی کسی کچہری یا عدالت میں مطالبہ تک پیش نہیں کرتی صرف وہ گھر کی جیل میں پردہ نشین ہو کر اپنے خدا سے مردوں کے جو روستم کا شکوہ کرتی رہتی ہے، پھر معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ یہ دنیا، اپنے نصف جن سے مراد مستورات وغیرہ ہیں ۔
ان کے بارے میں خواہ یورپین قوموں کی رائے تسلیم کر لیں کہ یہی نصف افضل ہے، خواہ اسے باقی ماندہ نصف یعنی مردوں کے ہم پایہ تسلیم کر لیا جائے۔ ان کی رونق سے محروم ہو جاتا ہے، کیا ایسی قوم دنیا