کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 13
تو یہ ہے عورت کی صحیح تربیت، کیونکہ لکھنے کا سلیقہ بدکار آدمیوں سے خط و کتابت کا ذریعہ ہے بالا خانوں میں رہائش گفت و شنید کا سبب بنے گی، خواہ اشاروں کنایوں سے ہی کیوں نہ ہو، اور تکلہ (کاتنے) کی تعلیم نفع بخش مشغلہ ہے، کیونکہ اس میں بدن اورر دماغ کی ریاضت اور محنت کے علاوہ مادی فوائد بھی موجود ہیں ، جو گزر اوقات میں معاون ہوں گے، سورۂ نور کی تعلیم انہیں پاکیزہ زندگی پر آمادہ کریگی اس لئے کہ اس سورۃ میں حد زنا، بہتان تراشی اور ان سے متعلقہ زجر و توبیخ کا ذِکر حکم لعان، [1]اس سے پیدا ہونے والی عار اور رسوائی کا بیان ہے، نیز اس میں ایک بہت بڑے طومار کا ذکر ہے، جو ایک نہایت پاکباز اور بے قصور خاتون پر باندھا گیا۔ اور یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص، ایماندار، پاکباز اور بے قصور عورتوں پر بھی افترائ پردازی سے بھی باز نہ آئے اس کے لئے اللہ رب العزت نے دینا و آخرت میں کس درجہ کی شدید ترین سزا مقرر فرمائی ہے، اس سورہ میں ایماندار مرد ہوں ، یا عورتیں ، ان کو اللہ تعالیٰ نے نگاہ نیچی رکھنے کا حکم صادر فرمایا ہے، نیز عورتوں کو اجنبیوں یعنی جن سے نکاح حلال ہو لیکن نکاح نہ ہوا ہو، ان کے سامنے اظہار زیبائش اور نمائش حسن سے روک دیا ہے۔
قسم خدا کی! یہ نوجوان لڑکی کے لئے بہترین ادب ہے، اگر لوگ اس حدیث پر عمل کرتے تو عورتوں کی اصلاح ہو جاتی اور لوگ ان میں نیکی اور پارسائی کے وہ نمونے پاتے جو زمانۂ قدیم سے مفقود ہیں ،
[1] جب خاوند بیوی پر تہمت لگائے اور گواہ نہ ہوں تو وہ عدالت میں حاضر ہو کر چار عدد قسمیں کھاتا ہے کہ وہ سچا ہے، اور پانچویں دفعہ کہتا ہے کہ مجھ پر خدا کی لعنت ہو اگر میں جھوٹا ہوں، اگر عورت خاموش ہو جائے تو وہ سنگسار کی جاتی ہے، لیکن اگر وہ بھی جواب میں اسی طرح چار قسمیں کھالے کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں بار یہ کہے کہ مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو اگر وہ سچا ہو تو وہ اس سزا سے بچ جاتی ہے۔ اگر اس موقعہ تہمت کی اولاد پیدا ہو جائے تو وہ اگرچہ عورت کی ہو گی، لیکن پھر بھی عورت کو زانی نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی مرد کو جھوٹا کہا جاتا ہے، بلکہ ان کا معاملہ خدا کے سپرد کر کے یہ کہا جاتا ہے کہ خدا جانتا ہے، کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے اسے شریعت مطہرہ میں لعان کہا جاتا ہے کہ ہر ایک لعنت اور غضب کی قسمیں کھاتا رہے۔ (مترجمہ)