کتاب: محدث شمارہ 5 - صفحہ 12
تعلیم و تربیتِ نسواں افراط و تفریط کے درمیان اسلام کی راہِ اعتدال (قسط اوّل) اِس مسئلہ میں لوگوں کی تین مختلف آرا ہیں ۔ ڈاکٹر تقی الدین ہلالیؔ (پروفیسر مدینہ یونیورسٹی) مولانا عبد السلام کیلانیؔ مدنی (مترجم) پہلی رائے: یہ ہے کہ کو بغیر کسی تفہیم و تفسیر کے صرف سادہ قرآن مجید کی تعلیم دی جائے۔ ان کی نظر میں یہی رائے عمدہ ترین اور یہی نظریہ باقی تمام نظریات سے درست ہے، ہمارے آباؤ اجداد۔۔۔۔ جو ہم سے بہتر تھے۔۔۔۔۔ ان کی روشن بھی یہی تھی۔ تعلیم نسواں ان کے اخلاق کو بگاڑ دیتی ہے، کیونکہ ناخواندہ عورت شیطان سیرت مردوں کی دسترس سے دور رہتی ہے، بدیں وجہ کہ قلم بھی۔۔۔۔ جیسا کہ کسی پر مخفی نہیں ۔ ایک زبان ہے جس کے شر سے اَن پڑھ عورت محفوظ رہے گی۔ اس پر مستزادیہ کہ جب وہ حجاب متین اور پردۂ کثیف اوڑھ لے گی تو دوسری زبان کے شر سے محفوظ ہو کر جنسی بے راہ روی سے مکمل طور پر امن میں رہے گی۔ ہم کتنی طالبات کو جانتے ہیں کہ وہ بحالت اسلام، پارسائی، عربی مروت اور اس کی پاسبانی کے ہوتے ہوئے بھی تعلیم اور صرف تعلیم ہی کی وجہ سے برائی کی لپیٹ میں آگئیں !! چہ جائیکہ عصر حاضر ہو جس میں عیش و عشرت کی رو ہلاکت کے گڑھے تک پہنچ چکی ہے، بیماری معالج کے اختیار سے باہر ہے، تو ایسے دور میں تعلیم نوجوان لڑکی کے پاکیزہ ذہن کو پراگندہ، غیروں سے آشنائی کا جذبہ اور گندے خیالات کو جنم دینے کا باعث بنے گی۔ حدیث میں ہے، لَا تُسْکِنُوْھُنَّ الُغُرَفَ وَلَا تُعَلِّمُوْھُنَّ الْکِتَابَۃَ وَعَلِّمُوْھُنَّ الْمِغْزَلَ وَسُوْرۃَ النُّوْرِ، ان کی رہائش بالا خانوں پر نہ رکھو، لکھائی نہ سکھاؤ، بلکہ تکلہ (یعنی کاتنے)، اور سورہ نور کی تعلیم دو۔‘‘