کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 7
کے تحفظ کے لئے ایک قدرتی حصار ہے جسے ایک بار ڈھا دینے کے بعد خواتین کو واپس لانا مشکل ہو گا، بہرحال پردہ کرا کے ان کو قرآنی تربیت کے مواقع مہیا نہیں کیے تو یہ آپ کا قصور ہے، مگر سزا ان کو دی جا رہی ہے یہ بہت بڑی بے انصاف ہے۔
پردہ تکلّف نہیں ہے، ایک قرآنی فریضہ ہے، قرآن حمید کا ارشاد ہے کہ:
﴿یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ ﴾(احزاب ع۷)
اے نبی! اپنی ازواج (مطہرات) اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمائیں کہ: وہ اپنی چادروں کے گھونگھٹ نکال لیا کریں۔
جلباب بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے سارا جسم ڈھانپ لیا جاتا ہے۔
وھم ثوب اکبر من الخمار والصحیح انہ یسترجمع البدن (قرطبی)
آج کل دیہات میں اس جلباب کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں کہ خاندانی عورتیں بڑی سی چادر لپیٹ لیتی ہیں اور منہ پر بھی اسے لٹکا لیتی ہیں۔
پاکستان کی سب سے پہلی قومی اسمبلی کے معزز رکن، بانیٔ پاکستان کے دستِ راست اور نیشنل اسمبلی کے پہلے شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ (۱۳؍ دسمبر ۱۹۴۹ء) مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:
یعنی بدن ڈھانپنے کے ساتھ چادر کا کچھ حصہ سر سے نیچے چہرہ پر بھی لٹکائیں (سورۂ احزاب صفہ ۵۵۲ حاشیہ نمبر ۷)
﴿وَاِذَا سَاَلْتُمُوْھُنَّ فَسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ﴾ (ایضا)
جب ان سے کچھ مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو۔
علامہ عثمانی لکھتے ہیں کہ: اس آیت میں حکم ہوا پردہ کا کہ مرد حضرت کی ازواج کے سامنے نہ جائیں، کوئی چیز مانگنی ہو تو وہ بھی پردہ کے پیچھے سے مانگیں۔‘‘ (سورۂ احزاب)
طبقات ابن سعد میں مذکور ہے کہ:
اس (آیت کے نزول) کے بعد ازواج مطہرات بجز نسبی ورضاعی اقارب کے سب سے حجاب کرتی تھیں اور امام حسن و حسین کے سامنے بھی نہیں آتی تھیں بلکہ نابینا مردوں سے بھی پردہ کرتی تھیں۔ (کشف النقاب عن مسئلۃ الحجاب)