کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 6
چونکہ محترم وزیر اعظم نے پردہ کے بارے میں مندرجہ بالا خیالات کا اظہار کر کے تصویب کے لئے اسلامی اصولوں اور مساوات کا ذکر فرمایا ہے اس لئے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ کتاب و سنت کی واضح تصریحات پیش کرنے پر اکتفا کریں۔ باقی رہا مثالوں کے لئے محترمات کا ذکر تو ان کے پورے احترام کے باوجود ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ان کی بجائے ہمارے لئے بہترین مثالیں امہات المومنین اور صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں سے ہونی چاہئیں جن کا قول و کردار اس سلسلہ میں واضح ہے۔ حکمران خواتین کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس قوم نے اپنی سیاسی باگ ڈور عورت کے ہاتھ میں تھما دی بس وہ پھر گرداب بلا سے نہ نکلی۔ لن یفلح القوم ولو امرھم امرأۃ (بخاری) بلکہ ایسے حال میں اسے یہ بھی زیب نہیں دیتا کہ وہ زمین پر بوجھ بن کر رہے اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ: زمین کی تہوں میں جا کر وہ اپنا منہ چھپا لے۔ فبطن الارض خیر لکم من ظھرھا (ترمذی) پردہ جو دراصل صنفِ نازک کی قابلِ احترام عصمت و عفت کے لئے ایک حصار کی حیثیت رکھتا ہے، گر کی چار دیواری جو حِسًّا اور عرفًا ’’جیل‘‘ کی چار دیواری سے مماثل ہے۔ اسے ڈھا دینے کو کوئی بھی مجاہد آگے نہیں بڑھتا۔ حالانکہ وہ چار دیواری جیل کے بالکل مشابہ ہے۔ مگر اس کی طرف ہاتھ بڑھانا کوئی مناسب نہیں سمجھتا۔ کیونکہ وہ ’’جیل‘‘ نہیں، پناہ گاہیں ہیں۔ یہی کیفیت پردہ کی ہے۔ مگر یار دوستوں نے افسوس! اس سادہ سی بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں رمائی۔ اگر پردہ کی اوٹ اور برقع جیل ہیں تو ملک و ملت کے در و دیوار کو بھی اڑا دینا چاہئے تھا کیونکہ یہ در و دیوار بظاہر بند کوٹھڑیاں بھی ہیں اور اپنی قوم سے بدگمانی کا ثبوت بھی کہ وہ اس کو چور یا ڈاکو تصّور کرتے ہیں۔ یہاں پردے دو نہیں تھے ایک تھا۔ اوٹ میں تھیں تو دوسری نقاب نہیں تھی، نقاب تھی تو اوٹ نہیں تھی۔ خدا جانے موصوف کو یہ دہری دیوار کیسے دکھائی دینے لگی ہے۔ گو پردہ سبھی کچھ نہیں ہے لیکن ہمارے نزدیک بہت کچھ ضرور ہے۔ ’’پردہ‘‘ عصمتوں اور عفتوں