کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 5
پردہ جیل نہیں، عصمت و عفِت کے لئے حصار ہے
تکلّف نہیں، ایک دینی فریضہ ہے
پچھلے دنوں وزیر اعظم پاکستان جناب ذو الفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کے ایک اجلاس کی افتتاحی تقریر کرتے ہوئے کہا:
’’ایک طرف تو آپ انقلاب کی باتیں کرتے ہیں لیکن دوسری طرف دو دنوں تک آپ لوگوں نے خواتین کو ’’جیل‘‘ میں رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے زور دار آواز میں کہا: سرداری نظام سے پہلے اس استحصال کو ختم کیجیے اور خواتین کو پردوں کی اوٹ سے باہر نکالیے، انہوں نے پردے کے پیچھے بیٹھی ہوئی خواتین کو دعوت دی کہ وہ بھی مردوں کے دوش بدوش آکر بیٹھیں، پی پی آئی کے مطابق چند ہی لمحوں میں خواتین باہر نکل آئیں اور ڈائس کے سامنے آکر بیٹھ گئیں۔ وزیر اعظم نے اس مرلے پر پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مبشر حسن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ آپ اپنے کو بڑا، انقلابی سمجھتے ہیں لیکن آپ خواتین کو پردے کے پیچھے سے یہاں نہیں لا سکے۔ وزیر اعظم نے کہا: اگر قائدِ اعظم کی ہمشیرہ مادرِ ملت فاطمہ جناح سیاست اور انتخابات میں حصہ لے سکتی تھیں، اور پاکستان کے وزیرِ اعظم کی بیوی بیگم رعنا لیاقت علی سندھ کی گورنر بن سکتی تھیں جو اب بھی اپوا کی چیئرمین ہیں اور اگر بیگم بھٹو تقریریں کر سکتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ دیگر خواتین ایسا نہیں کر سکتیں۔ انہوں نے کہا کہ مندوبین نے استحصال کے خاتمے کی باتیں کی ہیں۔ سوشلسٹ انقلاب اور سرداری نظام کے خاتمے اور مساوات کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گو ہمیں اسلام پر ایمان ہے تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ مساوات اسلام کے اصولوں میں سے ایک ہے، انہوں نے کہا اسلام نے ایک انقلاب برپا کیا ہے اور ہمیں اپنے دین کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنا چاہئے لیکن ہمارا عمل کیا ہے؟ انہوں نے پردے کے پیچھے بیٹھی ہوئی خواتین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
آپ لوگوں نے خواتین کو دہری دیوار کے پیچھے رکھا ہوا ہے۔ پہلی دیوار برقع ہے اور دوسری دیوار وہ چلمن ہے جہاں آپ نے ان کو بٹھایا ہے۔‘‘
(روزنامہ نوائے وقت۔ لاہور)
اس موضوع پر اس وقت بھی موصوف نے اظہار خیال فرمایا تھا جب وہ سیرت کانگرس کے مندوبین کو آخری روز کراچی میں الوداعی دعوت میں خطاب کر رہے تھے۔ (نوائے وقت)