کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 46
کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ در حقیقت سیرت و کردار کا یہی وہ بلند ترین مقام ہے جس پر پہنچنا رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ ہے اور اسی سیرت و کردار کے ساتھ زندگی گزارنا دنیوی فلاح اور اُخروی نجات کی ضمانت ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیم کردہ اخلاقِ حسنہ کا مقصد اسی سیرت و کردار کو پیدا کرنا اور پروان چڑھانا ہے۔ قرآن و حدیث کے تعلیم کردہ اخلاقِ حسنہ کا مقصد اسی سیرت و کردار کو پروان چڑھانا ہے۔ قرآن و حدیث میں جن منفی صفات و اخلاق (مثلاً تکبّر، ظلم، سنگدلی، جھوٹ، غصہ، فحش گوئی اور بد زبانی، غیبت، چغلخوری، حسد، عیب چنی، بخل، خیانت، نفاق، فریب، بزدلی، کینہ پروری اور بدخواہی وغیرہ) سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ان کا مقصود بھی دراصل مومن کے اندر اخلاقِ فاضلہ ہی کی تکمیل اور افزائش ہے اور ان سے بچنا اسی لئے ضروری ہے کہ ایک مومن کے حقیقی کردار اور اخلاقی مرتبہ و مقام کے ساتھ ان رذائل کی کوئی مناسبت ہی نہیں ہے! جناب منظور احسنؔ عباسی تو کائناتِ حسن ہے یا حسنِ کائنات تابندہ جس کی ضو سے ہے ایوانِ شش جہات ’’وہ کائنات حسن ہے یا حسنِ کائنات‘‘ وہ جس کا لفظ لفظ حقیقت کا ترجمان وہ جس کی بات بات میں شیرینیٔ نبات اقوال جس ک شرح کتابٔ مبین اور افعال جس کے معنیٔ آیاتِ بیّنات جس کا وجود شانِ خداوند ذو الجلال جس کی نمود لمعۂ طورِ تجلّیات وہ جس کے فیضِ دم سے معطّر مشام جاں وہ جس کے عطر بیز ہیں انفاسِ طیّبات ختم الرّسل، امامِ امم، ہادیٔ سُبل خیر الوریٰ، حبیبِ خدا، فخرِ کائنات ظِلّ الٰہ، رحمتِ عالم، شفیعِ حشر آئینہ دار ذات خدا مظہرِ صفات ہر نقش پائے احمدِ مرسل ہے ایک شمع روشن ہے جس کی لَو سے رہِ منزل حیات احسنؔ وہ جس کے عارض و گیسو کی یاد میں ہر روز روزِ عید ہے، ہر شب شبِ برات