کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 45
چاہے تو اس کا میدانِ عمل یہ دنیا نہیں ہو سکتی بلکہ اس کی جائے پناہ کوئی جنگل یا ویرانہ یا کسی پہاڑ کی کھوہ ہی ہو ستی ہے۔ مگر یہ یاد رہے کہ یہ راہِ فرار اختیار کر کے ایک شخص ایک طرف تو زندگی کا میدان برائی کی قوتوں کے لئے خالی کرتا اور بھلائی کی قوتوں سے اپنا رشتہ توڑ کر ان کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اور دوسری طرف زندگی کی امتحان گاہ کے بہت سے پرچے چھوڑ کر اپنی سیرت و کردار کی مثبت اور صالح تعمیر کے مواقع ضائع کرتا اور خالق کائنات کے مقرر کردہ مقصدِ تخلیق سے روگردانی کرتا ہے۔ اس لئے ایک مسلمان کا کردار اس رزمگاہِ خیر و شر میں بالکل متعین ہے۔ اس کو اپنی ذاتی سیرت و کردار کی تعمیر اسی مقصدِ تخلیق کے پیش نظر کرنی ہے اور اسی کے تقاضوں کی تکمیل کے ذریعے سے کرنی ہے۔ پھر مقصود صرف ذاتی اصلاح و تہذیب اور تعمیرِ کردار ہی نہیں بلکہ ایک ایسی جماعت کا قیام بھی ہے جو نیکیوں کا حکم دینے والی اور برائیوں سے روکنے والی ہو تاکہ دنیا کی زمامِ کار خدا کے باغیوں کے ہاتھ سے نکل کر خدا کے وفاداروں کے ہاتھ میں آئے اور انسانِ نیابتِ الٰہی کے اعزاز اور خلافت ارضی کے منصب کا صحیح اہل اور مصداق ثابت ہو سکے۔ مومن کا یہ مقام جس قسم کی اخلاقی عظمت اور صلابت کردار کا طالب ہے وہ محض وعظ و نصیحت یا نیک خواہشات سے پیدا نہیں ہو سکتے بلکہ ان کے لئے مہم ریاضت، مسلسل سعی و جہد اور مستقبل محاسبۂ نفس کی ضرورت ہے۔ بندۂ مومن کو صرف اپنے نفس کے غلط داعیات و رجحانات ہی کے خلاف جنگ نہیں کرنی ہے بلکہ خارج میں پھیلی ہوئی برابرئی اور بغاوت و سرکشی کے خلاف بھی نبرد آزما ہونا ہے، چنانچہ مسلسل مشق و تمرین، پیہم سعی و جہد اور مستقل حرکت و عمل ہی اس کو اس قابل بنا سکتے ہیں کہ وہ کردار کی اس عظمت کو پہنچے جو ایک مجاہد کا حصہ ہوتی ہے۔ اسلام در حقیقت ایسے مجاہدین فی سبیل اللہ کی ایک جماعت تیار کرنا چاہتا ہے جو نیکیوں کے فروغ اور غلبے اور برائیوں کی بیخ کنی اور خاتمے کے لئے اپنی اجتماعی جدوجہد کو بروئے کار لائیں اور اقامتِ دین کی منزل کی طرف مسلسل پیش قدمی کرتے ہوئے توفیقِ ربّانی سے اس کو حاصل کر لیں۔ پس یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کردار دراصل ایک مجاہدانہ کردار ہے اور انفرادی اصلاح اور تعمیرِ سیرت کی کوئی کوشش صحیح معنوں میں نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کردار کو اختیار نہ کیا جائے۔ وہ ساری صفات جن کا گزشتہ سطور میں ذکر کیا گیا ہے (دوسری بہت سی ایسی صفات سمیت جن کا ذکر ازراہ اختصار نہیں کیا گیا) دراصل ایک بندۂ مومن کو اسی مجاہدانہ کردار کے لئے تیار کرتی ہیں، اور اس کو ان تمام اخلاقی ہتھیاروں سے مسلح کرتی ہیں جو اس رزمگاہِ خیر و شر اور مصافِ حق و باطل میں اس