کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 44
سے شخصی سیرت و کردار میں وہ استواری پیدا ہوتی ہے جس کا پیدا کرنا عام حالات میں انفرادی کوششوں سے ممکن نہیں ہوتا۔ امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور جہاد: اعمال صالحہ کی طرف پیش قدمی اور نیکی کے لئے ترغیب و تعاون سے اگلا درجہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ہے جس کا ایک مرحلہ جہاد بھی ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے: ﴿وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (آل عمران: ۱۰۴) ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔‘‘ اس ضمن میں ارشادِ نبوی ہے کہ: ’’تم میں سے جو شخص برائی کو (ہوتا) دیکھے اسے چاہئے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے روک دے اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے منع کرے۔ اگر اس کی استطاعت بھی نہ رکھتا ہو تو دل میں اس کو برا جانے، اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔‘‘ (مسلم۔ روایت حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ) حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون سا جہاد افضل ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کَلِمَۃُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جائرٍ (نسائی) یعنی ’’ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنا۔‘‘ جیسا کہ معلوم ہے، امتِ مسلمہ کا حقیقی مقام اور کردار خَیْرُ اُمَّۃٍ اور اُمَّۃِ وَسَط کا ہے۔ یعنی اسلام کوئی ایسا عقیدہ اور طرزِ زندگی نہیں ہے جس کو انفرادی طور پر اختیار کر لینا کافی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرنا نہ صرف یہ کہ کافی نہیں ہے بلکہ ممکن بھی نہیں ہے۔ یہ دنیا ایک رزمگاہ ہے جس میں شر کی قوتیں بھی اپنا کام کر رہی ہیں اور خیر کی قوتیں بھی برسرِ کار ہیں۔ یہاں حِزْبُ اللّٰہ بھی موجود ہے اور حِزْبُ الشَیْطٰن بھی۔ یہاں خدا اور اس کے دین پر ایمان لانے والے بھی پائے جاتے ہیں اور ان کا انکار کرنے والے بھی۔ ان دونوں گروہوں کے مابین ایک ازلی تصادم اور کشمکش برپا ہے۔ ایک آدمی اگر چاہے بھی تو اس کشمکش سے دامن بچا کر نہیں گزر سکتا۔ اور اگر کوئی ایسا کرنا