کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 43
جس طرح مستقل مزاجی عام دنیاوی معاملات میں کامیابی کی شرط ہے اسی طرح دین کے معاملے میں بھی اسے اختیار کرنے بے حد ضروری ہے کیونکہ نیکو کاری، خدا خوفی اور پرہیزگاری ایسی چیزیں نہیں ہیں جن کو بس وقتی جوش کے تحت آدمی اپنا کر پھر غفلت کی نیند سو جائے۔ تقویٰ اور پرہیز گاری تو انسان کی پوری زندگی میں مطلوب ہیں اور مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کے ساتھ مطلوب ہیں۔ مقصود یہ نہیں ہے کہ آدمی وقتاً فوقتاً نیکیوں کے کچھ کام انجام دے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ اس کی پوری زندگی نیکی، پرہیزگاری اور صلاح و فلاح کی مظہر ہو۔ اس لئے یہ نصیحت فرمائی گئی کہ جو نیکی بھی اختیار کرو اس کو ثابت قدمی سے نبھاؤ، اس میں اعتدال و توازن کو ملحوظ رکھو اور ایسی انتہا پسندی کا مظاہرہ نہ کرو کہ کچھ وقت تو خوب جوش و جذبہ دکھاؤ اور پھر سست اور مضمحل ہوکر بیٹھ جاؤ۔ کیونکہ نیکی کے معاملے میں حد استطاعت و اعتدال سے بڑھ کر پیش قدمی کرنا اس خطرے سے خالی نہیں کہ بعد میں ایسی پسپائی کی نوبت آجائے جو کم از کم معیارِ مطلوب سے بھی تمہیں پیچھے لے جائے۔ اس لئے بہترین طرزِ عمل اعتدال و توازن کو ملحوظ رکھنا اور مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کے ساتھ نیکیوں پر کار بند رہنا ہے۔ اس اعتدال و توازن اور ثبات و استقلال کے ساتھ ایک مومن کی حقیقی شان یہ ہے کہ وہ نیکیوں کے معاملے میں حریص ہو، بھلائی کے ہر موقع سے فائدہ اُٹھائے اور جن اعمالِ صالحہ کی اس کو تعلیم دی گئی ہے ان کی توفیق و استطاعت رکھتے ہوئے ان کی انجام دہی میں کبھی کوتاہی نہ کرے۔ نیکیوں کے ساتھ یہ غیر معمولی محبت اور ان کی طرف پیش قدمی میں جلدی کرنے کی صفت ایک بندۂ مومن کے اندر اسی وقت نشوونما پا سکتی ہے جبکہ وہ کامل شعور کے ساتھ اُخروی زندگی کی کامیابی کو اپنا مطمحِ نظر بنائے اور دنیوی زندگی پر آخرت کی زندگی ترجیح کو اپنا شعار بنا لے۔ ’’نیک اعمال کی انجام دہی میں جلدی کرو‘‘ کی نصیحت سے مقصود غفلت کی روش پر تنبیہ کرنا اور ترجیحِ آخرت کی محبت کو دلوں میں راسخ کرنا ہی ہے۔ نیک اعمال پر مداومت اور ان میں پیش قدمی کے ساتھ نیکیوں کی طرف رغبت دلانا اور ان میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا بھی محمود و مقصود ہے، اور یہ بجائے خود ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے۔ ﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ ﴾نیکی کی ترغیب اور اس میں تعاون خود آدمی کے اپنے جذبۂ خیر کے لئے باعثِ تقویت اور تعمیرِ سیرت میں ممد و معاون ہوتا ہے۔ اس سے اسلامی معاشرے میں نیکیوں کے نشوونما پانے اور برائیوں کے دبنے اور سکڑنے سمٹنے کی فضا پیدا ہوتی ہے اور افرادِ معاشرہ کی بہت سی انفرادی کوتاہیوں اور خامیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ باہمی تعاون و ترغیب