کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 42
کی اخلاقی بلندی، وسعتِ نظر، بلند حوصلگی، سیرت و کردار کی پختگی، خود اعتمادی اور روشن ضمیری کی صفات جنم لیتی ہیں۔ اس طرح یہ صبر انسان کی شخصیت کی تعمیر اور اخلاقی ارتقاء کا ایک زبردست وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔ پھر صبر کی صفت اگرچہ ہر انسان کے لئے قوتِ حیات کے بمنزلہ ہے، لیکن ایک مومن تو اس سے ایک لمحے کے لئے بھی بے نیاز نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی پوری زندگی ہی دراصل ایک مسلسل پیکار ہے، اولاً اس دنیا میں سرگرمِ کار طاغوتی طاقتوں کے خلاف، اور ثانیاً اس نفس کے خلاف جو ہر لحظہ اس گھات میں لگا رہتا ہے کہ کہاں اس کے ارادے کی باگیں ڈھیلی پڑیں اور وہ اپنے سوار کو زیر کر لے۔ صاحب ’’تفہیم القرآن‘‘ نے صبر کی اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ’’صبر کے لغوی معنی روکنے اور باندھنے کے ہیں، اور اس سے مراد ارادے کی وہ مضبوطی، عزم کی وہ پختگی اور خواہشاتِ نفس کا وہ انضباط ہے جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلے میں میان اپنے قلب و ضمیر کے پسند کیے ہوئے راستے پر لگاتار بڑھتا جائے۔‘‘ (تفہیم القرآن ’’جلد ص ۷۳) اسی مفہوم کو نہایت سادگی اور جامعیت کے ساتھ ایک حدیث شریف میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ ’’صبر تین طرح کا ہے: مصیبت پر صبر، اطاعت پر صبر (یعنی اس پر ثابت قدمی) اور نافرمانی سے صبر (یعنی اس سے اجتناب) رواہُ اَبوُ الشیخ فِی الثوابِ عن عَلّیٍ۔ نیک اعمال پر مُداومتِ، پیش قدمی اور معاونت: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وَکَانَ اَحَبَّ الدِّیْنِ اِلَیْہِ مَا دَوَامَ صَاحِبَہٗ عَلَیْہ (متفق علیہ) ’’اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین وہ ہے جس پر اس کا اختیار کرنے والا ہمیشگی اختیار کرے۔‘‘ ایک موقع پر ارشاد فرمایا: بِادِرُوْا بِالْاَعْمَالِ الصَّالِحَۃِ ’’یعنی نیک اعمال سر انجام دینے میں جلدی کرو۔‘‘ (مسلم) اسی طرح فرمایا: مَنْ دَلَّ عَلٰی خَیْرٍ فَلَہٗ اَجْرُ فَاعِلِہٖ ’’جس نے کسی نیک کام کی ترغیب دی، اس کے لئے اس نیکی کو انجام دینے والے کے برابر اجر ہے۔‘‘ (مسلم رحمہ اللہ)