کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 41
اَلصَّبْرُ نِصْفُ الْاِیْمَانِ ’’صبر نصف ایمان ہے۔‘‘ (بیہقی) طبرانی میں منقول ہے کہ: ’’صبر کرنا اور اللہ کے اجر کی امید پر کام کرنا غلاموں کو آزاد کرنے سے افضل ہے اور ان صفات کے حامل کو اللہ تعالیٰ بغیر حساب کے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘ ان ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ صبر ایک ایسی صفت ہے جو ظلمت کدۂ حیات میں انسان کے لئے روشنی کا کام دیتی ہے اور ایک مومن کے لئے دنیا اور آخرت کا سرمایہ ہے۔ صبر کی یہ اہمیت اور فضیلت کیوں ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں وہاں انسان کو دو حالتوں سے لازماً سابقہ پیش آتا ہے ایک تو یہ ہے کہ یہاں ہر چیز ہماری مرضی اور پسند کے مطابق نہیں ہے، بلکہ ان گنت حالات اور معاملات ہماری مرضی اور پسند کے خلاف ظہور میں آتے ہیں، اور ان کو بدل ڈالنا ہمارے بس میں نہیں ہوتا۔ مثلاً بیماری، رنج و غم، مصائب و مشکلات اور پریشانیاں۔ دوسرے یہ کہ انسان اس زندگی میں جو عقیدہ و مسلک اور طرزِ زندگی اختیار کرتا ہے، اور اپنا جو نصب العین مقرر کرتا ہے اس کی پابندی اور اس کے حصول میں ایک طرف تو اسے باہر کے ماحول سے مزاحمت، تصادم اور کشمکش سے سابقہ پیش آتا ہے، کیونکہ اس کے اس عقیدہ و مسلک اور طرزِ زندگی اور نصب العین کے اثرات اس سے مختلف عقیدہ اور نصب العین رکھنے والوں پر بھی مترتب ہوتے ہیں اور وہ اس پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں اور دوسری طرف انسان کو اپنی ذات کے اندر سے بھی بعض مشکلات اور مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ خود اس کا اپنا نفس بھی بسا اوقات اس کے انتخاب کردہ طرزِ زندگی اور نصب العین کے ناگزیر تقاضوں کو قبول کرنے سے پہلو تہی کرتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں انسان کی جو اخلاقی صفت اس کی دستگیری اور دمسازی کرتی ہے۔ وہ صبر ہے یعنی ایک صبر تو وہ ہے جو انسان بعض غیر اختیاری حالات و مصائب اور پریشانیوں کے مقابلے میں اختیار کرتا ہے اور اس صبر کا مظاہرہ اس طرح ہوتا ہے کہ وہ گھبراہٹ، مایوسی، اضطراب تنگ دلی اور تُنک ظرفی کا شکار نہیں ہوتا۔ اور ایک صبر وہ ہے جس کا مظاہرہ اس کی طرف سے اپنے عقیدہ و مسلک اور نصب العین کے معاملے میں مستقل مزاجی، ثابت قدمی، جرأت و حوصلہ، عالی ظرفی اور ضبطِ نفس کی شکل میں ہوتا ہے؟ اور ان دونوں کے نتیجے میں انسان کے اندر ایک طرح