کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 40
میں نہیں لینا چاہئے۔ دین میں سچائی دراصل قول و فعل میں مقصود ہے۔ صداقت شعاری کا تعلق صرف زبان کے ساتھ سچ بولنے سے نہیں ہے بلکہ پوری عملی زندگی سے ہے۔ ایک چیز پر ایمان لانا اور پھر اس کے عملی تقاضوں کو نظر انداز کر دینا یا اس کے برعکس طرزِ عمل اختیار کرنا راست بازی اور صداقت شعاری کے خلاف ہے۔ اسی لئے روزے جیسی اہم عبادت کے مقصودِ حقیقی کو ذہن نشین کرنے کے لئے ارشاد فرمایاکہ اللہ کو اس شخص کے روزے کی کوئی حاجت نہیں ہے جس نے جھوٹ اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا۔ سورہ الصفّ میں فرمایا گیا: ﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدِ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾ ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرت نہیں۔‘‘ صداقت ہی کا ایک شعبہ دیانت و امانت اور پاسِ عہد ہے اور ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرنا لازمۂ ایمان ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اٰیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ: (زَادَ مُسْلِمٌ: وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وزَعَمَ اَنَّہٗ مُسْلِمٌ) اِذَا حَدَّثَ کَذَب وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ واِذا اؤْتُمِنَ خَانَ (مُتَّفَقٌ علَیہ) منافق کی تین نشانیاں ہیں، اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو اور روزہ رکھتا ہو اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو، یہ کہ جب بولے تو جھوٹ بولے، اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کر گزرے۔‘‘ صبر و استقامت: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وَمَا اُعْطِیَ اَحَدٌ عَطَاءً خَیْرًا وَاَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ (متفق علیہ) ’’اور کسی شخص کو صبر سے بڑھ کر اچھا اور ہمہ گیر عطیہ نہیں دیا گیا۔‘‘ ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے: اَلصَّبْرُ ضِیَاءٌ۔ ’’صبر روشنی ہے۔‘‘ (مسلم) اسی طرح ارشاد فرمایا: