کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 4
معروف ائمہ اہل بیت کی طرف منسوب کرنے میں جلدی نہیں کرنا چاہئے اور اس سلسلے کی ممکن دلائل اور شواہد کے بارے میں پہلے اطمینان کر لینا ضروری ہے۔ اگر ان مزارات کے بارے میں یہ فیصلہ ہو جائے کہ واقعی یہ انہیں بزرگوں کے مزارات ہیں تو ہمارے نزدیک اس مرحلے پر سعودی حکومت کے لئے اس میں بڑی آزمائش کے سامان ہو گئے ہیں، خدا خیر کرے۔ بہرحال ایسی صورتِ حال کے بارے میں صحابہ بالخصوص حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا کیا طرزِ عمل رہا ہے۔ ہم اس سلسلے میں ان کا تعامل پیش کرتے ہیں تاکہ ٹھنڈے دل سے ہم سب اس پر غور کر سکیں۔ مغازی محمد بن اسحاق میں ابو العایۃ سے روایت ہے کہ: جب ہم نے ’’تستر‘‘ فتح کیا تو ہر مزان کے بیت المال میں ایک چار پائی ملی جس پر ایک لاش رکھی ملی اور اس کے سرہانے ایک مصحف، اسے اُٹھا کر حضڑت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے، حضرت کعب سے ترجمہ کرایا۔ خالد بن دینار فرماتے ہیں ہم نے پوچھا پھر اس لاش کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ جواب دیا تیرہ قبریں الگ الگ کھود کر رات کو ایک میں دفن کر کے اور سب کو برابر کر دیا تاکہ لوگوں کو پتہ نہ چلے۔ حضرنا بالنھار ثلثۃ عشر قبرا متفرقۃ فلما کان باللیل دفناہ وسوینا القبور کلھا لنعمیہ علی الناس لا ینبشونہ (اقتضاء الصراط المستقیم ص ۱۶۳) جب بارش کا قحط ہوا تو چار پائی مذکور کو باہر رکھ دیتے، پھر بارش ہو جاتی، پوچھا وہ کس کی لاش تھی؟ جواب دیا: اس کو دانیال کہتے ہیں۔ (ایضاً ص ۱۶۳) یہاں بات ’’توحید‘‘ کا تحفظ اور شرک و بدعت کے امکانات کے سدِّ باب کی ہے، ہو سکتا ہے لوگ اسے بے ادبی خیال کریں مگر یہ صحیح نہیں، دفن تو آپ نے بھی کر دیا ہے، یہاں صرف اتنا کی ہے کہ: اس کی تشخیص کا سدباب کیا گیا ہے تاکہ رسومات بدعیہ کا احیاء نہ ہو۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو الہیاج اسدی کو ایک قبرستان کو مسمار کرنے پر مامور کیا تھا (مسلم) کیونکہ وہاں قبوری فتنوں کے امکانات باقی تھے۔ اس سلسلے میں مزید لکھنے کی حاجت نہیں رہی۔ صرف دل سے پوچھنے کی بات ہے کہ: ایمان اور توحید مطلوب ہے یا ایمان اور توحید سے کھیلنا؟