کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 39
ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ، کس کے لئے؟ فرمایا: ’’اللہ کے لئے اور اس کی کتاب کے لئے اور اس کے رسول کے لئے اور مسلمانوں کے قائدین کے لئے اور عام مسلمانوں کے لئے۔‘‘ (مسلم) اخوت اور نصیحت (خیر خواہی) دو ایسی بنیادیں ہیں جن پر اسلامی معاشرے کے اندر افراد کے باہمی تعلّق کی عمارت استوار کی گئی ہے۔ حقیقی بھائی چارے اور باہمی ہمدردی و خیر خو کا جو مفہوم بھی کسی معاشرے کے اندر ممکن ہو سکتا ہے وہ سب اسلامی معاشرے کے اندر مطلوب ہے، لیکن اس امتیاز کے ساتھ کہ اسلامی معاشرے میں یہ رشتۂ اخوت اللہ، اس کی کتاب اور اس کے رسول پر ایمان کے ساتھ وابستہ اور انہی آداب و مقاصد کا پابند ہے جو اس کے لئے متعین فرما دیئے گئے ہیں۔ اس رشتۂ اُخوّت کو مضبوط و مستحکم بنانے والی ہر چیز پسندیدہ اور مستحسن ہے اور اس کو نقصان پہنچانے والی ہر چیز قابلِ نفرت اور لائق باز پرس ہے۔ اسلامی معاشرے کے افراد کے درمیان اخوت کی رُوح وہ نصیحت و خیر خواہی ہے جس کی تاکید الدِّیْن النَّصِیْحَۃُ کے ارشاد سے فرمائی گئی اور جسے دوسرے لفظوں میں حسن اخلاص اور حسن نیت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ اس کیفیت کا نام ہے جس میں ایک مومن کی سوچ کا ہر رُخ اور عمل کا ہر انداز ملّت اسلامیہ کی انفرادی و اجتماعی فلاح اور دینِ خداوندی کی سرفرازی و کامرانی کے لئے وقف ہو جاتا ہے۔ صداقت شعاری، دیانت و امانت اور پاسِ عہد: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: اِنَّ الصِّدْقِ یَھْدِی اِلَی الْبِرِّ وَاِنَّ الْبِرَّ یَھْدِیْ اِلَی الْجَںَّۃِ (متفق علیہ) ’’بے شک سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔‘‘ مزید ارشاد ہوا: دَعْ مَا یُرِیْبُکَ اِلٰی مَا لَا یُرِیْبُکَ فَاِنَّ الصَّدْقَ طُمَانِیْنَۃٌ وَالْکَذِبَ رِیْبَۃٌ (ترمذی) ’’جو چیز تجھے شک میں ڈالتی ہے اسے چھوڑ کر اس کو اختیار کر جو شک میں ڈالنے والی نہیں ہے، کیونکہ سچ قلبی طمانیت (کا نام) ہے۔ اور جھوٹ شک و اضطراب (پیدا کرنے والی چیز) ہے۔‘‘ قرآن و حدیث میں صداقت شعاری کی تاکید بے شمار مقامات پر آئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ صفت اسلام کی تعلیم کردہ صفات میں ایک بڑا اونچا مقام رکھتی ہے۔ اس صفت کو محدود معنوں