کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 38
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نصیحت کی درخواست کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا تَغْضَبْ (غصے میں نہ آؤ) اس شخص نے متعدد مرتبہ یہی درخواست کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرتبہ اسے یہی نصیحت فرمائی۔ (بخاری) قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ: ﴿وَالْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ ﴾(النور: ۲۲) ’’اور انہیں معاف کر دینا چاہئے اور درگزر کرنا چاہئے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟‘‘ مسلم، مسند احمد اور بخاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی نقل ہوا ہے، فرمایا کہ بخل و تنگدلی (الشُحُ) سے بچو کیونکہ بخل و تنگدلی ہی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، اُس نے ان کو ایک دوسرے کے خون بہانے اور دوسروں کی حرمتوں کو اپنے لیے حلال کر لینے پر اُکسایا۔ شُحُّ نَفس (بخل و تنگدلی) کو محدود معنوں میں نہیں لینا چاہئے۔ یہ چیز دراصل فیاضی و فراخدلی اور ایثار و قربانی کی ضد ہے اور مختلف معاملات میں مریضانہ طرزِ فکر اور غیر صحت مند طرزِ عمل کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ رواداری، وسعتِ نظر اور ایک دوسرے کے جذبات کی پاسداری کی صفات، جو معاشرتی زندگی کی خواشگواری اور ہمواری کی ضمانت ہوتی ہیں، اس شُح نفس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ اس لئے اس سے سخت اجتناب کی تاکید فرمائی گئی ہے اور اس کے برعکس عالی ظرفی اور فراخدلی کی تعلیم دی گئی ہے کیونکہ ان صفات کے بغیر اسلامی طرزِ معاشرت کی امتیازی شان اجاگر نہیں ہو سکتی۔ ۳۔ اُخوت اور باہمی خیر خواہی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ: ’’مسلمان، مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہوتا ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو قوت پہنچاتا ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے بتایا (متفق علیہ) فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، کوئی شخص ایمان دار نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ (متفق علیہ) حضرت تمیم داری کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ (دین خیر خواہی ہے)