کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 37
اسی طرح سلام سے آغازِ ملاقات و گفتگو کا حکم دیا گیا اور فرمایا گیا کہ: اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ ’’اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔‘‘ (مسلم رحمہ اللہ) مراد یہ ہے کہ اہلِ ایمان جب بھی آپس میں ملیں باہمی سلامتی اور ایک دوسرے کے حق میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کی دعا کرتے ہوئے ملیں۔ یہ خوش اخلاقی حسنِ معاشرت کا نقطۂ آغاز ہے۔ بہت سے تعلقات اس وجہ سے کشیدہ یا ختم ہو جاتے ہیں کہ افراد کے اندر خوش خلقی کا جوہر کم ہوتا ہے یا اس کا مظاہرہ کرنے میں بخل سے کام لیا جاتا ہے۔ چونکہ اہلِ ایمان ایک ایسی جماعت ہیں جس کی باہمی تنظیم و استواری اور استحکام غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے اس لئے عام ملاقاتوں اور روز مرہ کی بے تکلف گفتگوؤں کو بھی ایک خاص سلیقے اور شائستگی کے قالب میں ڈھال دینا ضروری سمجھا گیا، اور جہاں خوشگوار تعلقات کی استواری کے لئے بعض بڑی بڑی ہدایات دی گئیں وہاں اس بظاہر چھوٹی سی بات کی تعلیم کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا کہ اہلِ ایمان کا رسمی میل جول بھی کس کیفیت اور کس شان کا حامل ہونا چاہئے۔ ۲۔ نرم خوئی، متحمل مزاجی، بردباری، عفو و درگزر اور ایثار و قربانی: یہ ساری صفحات دراصلعایل ظرفی اور بالغ نظری سے پیدا ہوتی ہیں اور عالی ظرفی اور بالغ نظری مومن کے خمیر میں شامل ہوتی ہے۔ خدائے واحد و قہار پر ایمان انسان کے اندر جس قسم کی بالغ نظری کی افزائش چاہتا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی تمام مذموم صفات، جو ان گھڑ شخصیت کا لازمہ ہوتی ہیں، محمود صفات کے لئے جگہ خالی کر دیں۔ اسی لئے قرآن مجید اور احادیثِ نبوی میں بے شمار مقامات پر مندرجہ بالا صفات کی تحسین کی گئی ہے اور اپنی شخصیتوں میں ان کو پروان چڑھانے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ یہ صفات، مشتعل مزاجی، منتقم طبیعت، بد خوئی درشتیٔ طبع، جلد بازی، عدم تدبر اور بخل و تنگدلی کی ضد ہیں اور ان سے اسلامی معاشرے کے انفرادی اور اجتماعی مزاج کا آب و رنگ معین ہوتا ہے۔ ارشاد ہوا: اِنَّ فِیْکَ خَصْلَتَیْنِ یُحِبُّھُمَا اللّٰہُ: اَلْحِلْمُ وَالْاَنَاۃُ (مسلم) یعنی ’’تیرے اندر دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے: بردباری اور وقار و سنجیدگی۔‘‘ حدیث قدسی ہے کہ: مَنْ یُّحْرَمِ الرِّفْقُ یُحْرَمِ الْخَیْرُ کُلُّہٗ (مسلم) ’’جو نرمی سے محروم ہوتا ہے وہ ہر طرح کی بھلائی سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘