کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 36
دراصل ایمان کی پختگی اور خدا خوفی کا ثمر ہے اور دراصل دونوں ایک دوسرے کو مستلزم ہیں۔ ایمان کے بغیر اخلاق پاکیزگی کا اور کردار کی اچھائی کے بغیر خدا ترسی اور خدا خوفی کا تصور بے معنی ہے۔ اسی حسنِ خلق کی بدولت مومن کو اطمینانِ قلب کی عظیم نعمت حاصل ہوتی ہے، اور اس کا یہی اطمینانِ قلب اس کو سیرت و کردار کی وہ عظمت عطا کرتا ہے کہ اس کے بعد نفس کی کوئی ترغیب ، شیطان کی کوئی تحریک، دنیا کی کوئی تحریص اور اقتدارِ باطل کی کوئی تخویف اس کو راہِ راست سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ مومن کا حسنِ خلق جلالی پہلو بھی رکھتا ہے اور جمالی پہلو بھی۔ جلالی پہلو کی طرف اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے کہ مومن مصارفِ زندگی میں کردار کی عظمت و صلابت کا مظاہرہ کرتا ہے اور جمالی پہلو یہ ہے کہ مومن اہل ایمان کے درمیان محبت و رافت کا ایک پیکر ہوتا ہے۔ اس کی گفتگو، اس کی نشست و برخاست، اس کی چال ڈھال اور اس کا باہمی میل جول ایک خاص قسم کے حسن و لطافت اور نفاست و ملائمت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ ﴿اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ﴾ (الفتح۔ ۲۹) ’’وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔‘‘ مندرجہ بالا توضیحات اس امر کے اثبات کے لئے کافی ہیں کہ ہر قسم کی نیکی اور اخلاقی عظمت دراصل حسنِ خلق ہی کی تعریف میں آتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیم کردہ اخلاقِ فاضلہ ۱۔ خندہ پیشانی سے ملنا اور سلام سے گفتگو کا آغاز کرنا: اسلام کی اخلاقی تعلیمات میں یہ چیز ایک اصولی اہمیت رکھیت ہے کہ نیکی کا کوئی کام حقیر نہیں ہے، خواہ بظاہر وہ کیسا ہی معمولی کیوں نہ ہو، اور بدی کا کوئی کام معمولی نہیں ہے، خواہ بظاہر ہو کتنی ہی چھوٹی سی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: لَا تَحْتَقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَلَو اَنْ تَلْقٰی اَخَاکَ بِوَجْہٍ طَلِیْقٍ (مسلم) یعنی ’’کسی نیکی کے کام کو حقیر مت سمجھو، خواہ وہ یہی کیوں نہ ہو کہ تم اپنے بھائی کو ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ ملو۔‘‘