کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 35
دوسری روایت میں حُسْنَ الْاَخْلَاق کے الفاظ آئے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اَحْسَنَ النَّاسِ خُلْقًا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں سے اعلیٰ اخلاق رکھتے تھے۔ (متفق علیہ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کے بارے میں قرآن مجید کی شہادت یہ ہے کہ: ﴿اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ ’’بے شک آپ اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔‘‘ آئندہ سطور میں ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کن اخلاقِ حسنہ کی تعلیم فرمائی ہے۔ اور کن برے اخلاق سے آگاہ کر کے ان پر اجتناب کی تاکید کی ہے تاکہ انسان کی اخلاقی اصلاح و تہذیب کے ربانی اصول و معیار ہمارے سامنے واضح ہو کر آسکیں۔ حسنِ خلق کیا ہے؟ حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلْقِ وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَکَرِھْتً اَنْ یطلع علیہ النَّاسُ (مسلم) یعنی ’’نیکی اخلاق و کردار کی اچھائی کا نام ہے، اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں خلش پیدا کرے اور تو اس بات کو ناپسند کرے کہ لوگ اس سے آگاہ ہوں۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ وہ کیا چیز ہے جو کثرت سے لوگوں کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنے گی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تَقوَی اللّٰہِ وَحُسْنُ الْخُلْقِ یعنی خدا خوفی اور حسن خلق۔ پھر عرض کیا گیا کہ وہ کیا چیز ہے جو لوگوں کو کثرت سے جہنم میں لے جانے کا سبب بنے گی۔ فرمایا: اَلْفَمُ وَالْفَرْجُ یعنی منہ اور شرمگاہ (ترمذی) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی نے حضور کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ: اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُھُمْ خُلُقًا (ترمذی) یعنی ’’مومنوں میں سے زیادہ کامل ایمان والے وہ ہیں جو ان میں سے اخلاق کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘ مندرجہ بالا ارشادات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اخلاق کی پاکیزگی اور کردار کیا اچھائی