کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 34
جس سے وہ اپنی شخصیت کی عمارت تیار کرتا ہے۔ اس کی اس شخصیت کے حسن و قبح کو دیکھ کر یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کی تعمیر میں مسالہ (Material) حسنِ عمل کا استعمال ہوا ہے یا بد عملی کا۔ اس کی بنیاد صالح افکار اور پاکیزہ اعمال پر قائم ہوئی ہے یا فاسد افکار اور برے اعمال پر رکھی گئی ہے۔ اگر یہ دیکھنا ہو کہ حیاتِ اخروی میں کسی انسان کو کیا مقام حاصل ہونے والا ہے تو اس کی اس شخصیت کا بغور مطالعہ کرنا چاہئے جو اس نے خود اپنے ہاتھوں سے تعمیر کی ہے۔ یہ شخصیت بول کر کہے گی کہ آخرت میں اس کی جائے اقامت کہاں ہونی چاہئے۔ آیا اس کو کوئی پاکیزہ اور شاندار مسکن میسر آنا چاہئے یا کوئی مقامِ بد اس کا ٹھکانہ بننا چاہئے۔ قرآن پاک کی بعض آیات اس مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ قیامت کے روز ہر شخص اس شخصیت کے ساتھ اُٹھے گا جس کے ساتھ وہ اس دنیا سے رخصت ہوا۔ ظاہر ہے کہ اس شخصیت سے مراد کسی شخص کا وہ دنیاوی مقام و مرتبہ یا کم مائگی و بے حیثیتی نہیں ہے جو اس مادی دنیا میں اسے میسر آئی، بلکہ اس سے مراد وہ اخلاقی حیثیت ہے جس پر قائم رہ کر اس نے دنیا میں زندگی گزاری اور اپنی اسی حیثیت کے ساتھ اس کا دفترِ عمل تمام ہوا۔ اس لئے ہم میں سے ہر شخص کو خوب اچھی طرح یہ سوچ کر اندازہ کر لینا چاہئے کہ ہم اس دنیا میں اپنے افکار و اعمال کے مسالے سے اپنی شخصیت کی کس قسم کی عمارت تعمیر کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ ہم اخلاقِ فاضلہ کا فہم و شعور کا حاصل کریں اور اپنی شخصیت میں ان کو اجاگر کرنے کی پیہم سعی و جہد کرتے رہیں، اور اسی طرح اخلاق سیئہ سے آگاہ ہو کر ان سے ہر ممکن اجتناب کریں۔ دین اور اخلاق: جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، اخلاق دراصل زندگی کے طریقے، سلیقے اور قرینے کا نام ہے اور اسی کی تعلیم و تربیت در حقیقت دین حقیقی کا مقصود ہے، یعنی انسان کو اس کے مقصدِ حیات سے آگاہ کر کے اس کے تقاضوں سے روشناس کرانا، اور ان کی تکمیل کے قابل بنانا۔ چنانچہ ہمارے نزدیک حقیقی اخلاق وہی ہیں جن کی تعلیم و ہدایت ہمیں دین کے واسطے سے حاصل ہوئی ہے۔ ہمیں زندگی کا وہی سلیقہ اور قرینہ مطلوب ہے جو خدا نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہمیں سکھایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ: بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق۔ یعنی ’’میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘