کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 33
حفیظ الرحمٰن احسنؔ اخلاق فاضلہ۔ احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اعلیٰ انسانی اخلاق کیا ہیں اور زندگی میں ان کی اہمیت کیا ہے، اس مسئلے پر مختلف علمائے عمرانیات اور دوسرے اہلِ فکر نے بہت کچھ لکھا اور کہا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ زندگی کے بنیادی مسائل میں سے ہے۔ اخلاق کی حیثیت اور اہمیت کو مختصر ترین لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اخلاق دراصل زندگی کے طریقے، سلیقے اور قرینے کا نام ہے، اور اس طریقے کا تعین اور اس سلیقے اور قرینے کا حصول ہی دراصل اخلاقیات کا حقیقی موضوع ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ پر واضح ہے کہ اخلاق اور فلسفۂ اخلاق کا گہرا تعلق خود انسان کے تصور زندگی کے ساتھ ہے۔ زندگی کا مادی تصور ایک مختلف فلسفۂ اخلاق اور جداگانہ نظامِ اخلاق تجویز کرتا ہے جب کہ زندگی کا روحانی تصور اپنے ایک مخصوص فلسفۂ اخلاق کے تحت ایک بالکل مختلف نظام کی تشکیل کو لازم کرتا ہے۔ انسان کا اخلاقی مسئلہ: اسلام کے نقطۂ نظر سے: اسلام کے نزدیک اس کائنات کی اور انسان کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے کی ہے اور اس تخلیق کا مقصد اس امر میں انسان کی آزمائش ہے کہ وہ اس عارضی مہلتِ حیات میں حسنِ عمل کا مظاہرہ کرتا ہے یا بدعملی کا۔ حسنِ عمل کا صلہ موت کے بعد ایک دوسری او ابدی زندگی کی ابدی نعمتیں ہیں اور بدعملی کی سزا ایک ہمیشہ رہنے والی حیاتِ عذاب ہے۔ اسلام کے عطا کردہ اس تصوّرِ حیات کی رُو سے انسان کا اصل اخلاقی مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیرت و کردار کا کونسا ایسا اسلوب اختیار کرے جو اس کے مقصدِ زندگی کے تکمیل میں ممد و معاون ہو سکے، اور کردار و عمل کے وہ کون سے پہلو ہیں جو اس مقصد کی تکمیل میں مانع ہوتے ہیں اور ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو انسان دراصل اپنے پورے کارخانۂ حیات کے ذریعے سے اپنی ایک شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔ اس کا ہر اندازِ فکر اور ہر طریق عمل دراصل ایک اخلاقی سامانِ تعمیر ہے۔