کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 32
بغیر کسی کےنقصان پہنچائے۔ جو ان بچوں کے حق وراثت میں حائل ہوتے ہیں انہیں خدا کا خوف چاہیے۔ ان کامال ، مال نہیں آگ ہے۔ ﴿وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (۹) إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ﴾ (النساء، ع۲) فرائض اسلام نے میراث کے لیے فرائض کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ فرائض سے مراد وہ طے شدہ حصے ہیں جو حتمی طور پر اسلام نے طے کردیئے ہیں۔ جن میں مداخلت جائز نہیں ہے۔ حدیث: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی حکم دیا ہے کہ جس کے طے شدہ حصے ہیں وہ ہرحال میں ادا کیےجائیں۔ الحقوا الفرائض باھلھا(بخاری۔مسلم عن ابن عباس) حصہ والوں کو ان کےحصےادا کرو۔ ماں باپ کی جائز شکایات بھی ہوسکتی ہیں لیکن ان کی جائز شکایات کے بدلے ناجائز اختیار دینا بہت بڑی بے اصولی ہے۔ بلکہ قرآن کا حکم ہے کہناجائز باتوں میں والدیں کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ ہاں ان کی خدمت میں کمی نہ کی جائے۔ ﴿فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ﴾ (سورہ لقمان) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے)لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق (مشکوٰۃ وغیرہ) جس میں اللہ کی نافرمانی ہوتی ہو۔ اس میں کسی کی بھی اطاعت جائز نہیں ہے۔ بلکہ ان شکایات کے ازالہ کی اور صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں۔ حکومت بھی ان کی شکایات سن سکتی ہے۔ بہرحال ہمارے نزدیک ، جائز و ارثوں کو حق سےمحروم کرنا بالکل جائز نہیں ہے او رنہ کسی کو اس کے خلاف کرنےکا حق پہنچتا ہے۔ الا یہ کہ خود شریعت اس کی اجازت دے۔اذلیس فلیس واللّٰہ اعلم (دستخط) عزیز زبیدی۔واربرٹن ضلع شیخوپورہ (مہر)مہتمم درسگاہ عملہ واربرٹن(شیخوپورہ) ٭٭٭