کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 31
چونکہ یہ بات تم کومعلوم نہیں کہ کس سےتم کونفع پہنچے گا۔ اس لیے تم کو اس میں دخل نہیں دینا چاہیے جو کچھ کسی کا حصہ مقرر فرما دیا ہے۔ اس کی پابندی کرو کہ اس کو تمام چیزوں کو بھی خبر ہے او روہ بڑا حکمت والا ہے۔ (مولانامحمود الحسن شیخ الہند سورہ مذکور) (ج) ﴿وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ ﴾ (سورۃ النساء ع۲) اللہ کا یہی حکم ہے۔ (تفسیر ثنائی :۱؍۲۹۶) یہ حکم اللہ کی طرف سے ہے (تفسیرماجدی ص۲۸۲) یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے (تفہیم القرآن مودودی :۱؍۳۲۹) (د) ﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ﴾ (سورۃ النساء ع۲) یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ (تفہیم القرآن:ج۱ص۳۳۰) یہ سب خداوندی ضابطے ہیں (تفسیرماجدی ص۱۸۲) ان ضابطوں کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں ہے خواہ کوئی ہو۔ (ہ) ﴿ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ ﴾ (النساء ع۲) او رجو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور حدود خداوندی سے آگے بڑھ جائے گا اللہ اس کو دوزخ کی آگ میں داخل کرے گا اور اس کو ذلت کا عذاب ہوگا۔ (تفسیر ثنائی :۱؍۲۹۶) اور جو اللہ او راس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدودں سے تجاوز کرجائے گا۔ اسے اللہ آگ میں ڈالے گا ۔جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے۔ (تفہیم القرآن:۱؍۲۳۰) دو رجاہلیت میں عورتوں اور چھوٹے بچوں کو ورثہ نہیں دیا جاتا تھا او ریہ سب کچھ والدین ہی کیاکرتے تھے۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ﴾ (النساء۔ ع۲) گویا کہ ان کے اس اختیار کو رد کردیا گیا۔ جو وہ استعمال کیا کرتے تھے۔ اختیارمشروط ہے۔ اس سلسلے میں جتنا کسی کو اختیار ہے وہ بھی غیر مشروط نہیں ہے کہ جب،جتنا او رجیسا کوئی چاہے کر گزرے۔بلکہ وہ اس امر کا پابند ہے کہ اللہ کی عائد کردہ شرائط کااحترام کرے۔ یہاں پر شرط یہ ہے کہ کسی حصے دار کانقصان نہ ہو۔ بیٹے یابیٹی کو عاق کرنا سب سے بڑا نقصان ہے۔ غَيْرَ مُضَارٍّ (سورۃ النساء ع۲) جس سے کسی کانقصان نہ کیا ہو۔ (تفسیر ثنائی:۱؍۲۹۸) جب اوروں کا نقصان نہ کیا ہو (شاہ عبدالقادر دہلوی ، ص۱۲۸)