کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 30
الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرح متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص اہلحدیث اپنی حین حیات میں للذکر مثل حظ الانثیین الایۃ کے مطابق اپنی جائیداد کو اپنے بیٹے او ربیٹیوں میں تقسیم کردیتا ہے مگر ان میں سے ایک بیٹی کو اپنی تمام جائیداد سکنی اور غیرسکنی سے بالکل محروم کردیتا ہے کیا اس کا یہ اقدام از روئے شرع شریف جائز ہے؟ کیا والد اپنے نافرمان بیٹے یابیٹی کو اپنی وراثت سے محروم کرسکتا ہے؟ کیا ایسے آدمی کی اقتدا بالصلوٰۃ جائز ہے ؟ اور اس کو کسی جامع مسجد کاخطیب یا امام مقرر کیا جاسکتا ہے۔ الراقم محمد ادریس عثمان، بلاک نمبر۱۵۔ ڈیرہ غازی خان) الجواب: ۱۔ کوئی بھی شخص ، وہ والد ہو یا مولود، حاکم ہو یا کوئی دوسرا سرپرست، وراثت کے کسی حق دار کو اپنے حصے سے ،وہ اُحد پہاڑ کے برابر ہو یا رائی برابر، محروم کرنے کامجاز نہیں ہے۔ کیونکہ: (الف) اس کاتعلق پرائیویٹ اختیار سے نہیں ہے بلکہ اس کاتعلق اقتدار اعلیٰ (حق تعالیٰ جو احکم الحاکمین ہے) کےاختیار، بنیادی پالیسی اور قانون سے ہے۔﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ﴾ (پ۴۔ سورۃ نساء ع۲) (ترجمہ) اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد (کی میراث) کے بارے میں حکم دیتا ہے۔مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔ (تفسیرماجدی) ’’یہی نہیں کہ خدا تم کو غیروں کے مال کھانے سے روکتا ہے بلکہ مسلمانوں کے اولاد کے حصول کی بابت حکم فرماتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوتا ہے۔‘‘ (تفسیر ثنائی ۸۱؍۲۹۴) مولانا ثناء اللہ امرتسری ) (ب) ﴿آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ ﴾ (پ۴۔ النساء ع۲) تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون سا بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیئے ہیں۔ (تفہیم القرآن) تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ او ربیٹیوں میں سے کون تم کوزیادہ نفع پہنچاسکتا ہے۔ اسی طرح کرو او رہرگز اس کے خلاف نہ کرو۔ اس لیے کہ یہ حصے اللہ کی طرف سے مقرر ہیں۔(تفسیر ثنائی ،ج۱،ص۲۹۴)