کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 29
وحدت ملی کے جو اصل تقاضے ہیں ان کی طرف کسی کا بھی دھیان نہیں ہے بلکہ جداگانہ ریاستوں یا سیاسی گروپوں کے استحکام کے لیے رات دن جہاد کرتے رہتے ہیں او رکبھی یہ نہیں سوچتے کہ اس کے بجائے سارے عالم اسلام کو ایک نظام خلافت کی لڑی میں پرو کر پوری ملت اسلامیہ کو ہم ایک وحدت میں منتقل کردیں۔ لیکن جو کوئی اٹھتا ہے ، وہ اسلامی احکام کی وسعتوں کو سمیٹنے پر تل جاتا ہے اور مصنوعی وحدت کے لیےسر پھٹول کرکے ملت کو مزید انتشار میں مبتلا کرکے رکھ دیتا ہے۔ قرآن و حدیث میں کہیں بھی متعدد جمعات کی ممانعت مذکور نہیں ہے۔ اگر ایک شہر میں متعدد جمعوں کا وجود کم دکھائی دیتا ہے تو صرف اس لیے کہ اس وقت حالات کا یہی تقاضا تھا۔ ایک ہی خلافت تھی، ایک ہی امیر تھا اور میر کارواں بھی ایک ہی امام تھا اور آبادی بھی اس کی متحمل تھی کہ ایک ہی جگہ اسے سمیٹا جاسکتا تھا۔مگر اب ان میں سے بیشتر قدریں بالکل بدل گئی ہیں۔ اس لیے اب محض مصنوعی وحدت کے لیے نوخیز نسل کے دینی مستقبل کو ضائع کرنا مناسب نہیں ہے۔ حضرت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (ج۷۲۸ھ؍۱۳۲۸ء) فرماتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے تعدد جمعہ کا حکم دیا تھا: ولنا ما صح عن امیر المومنین علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ امر بتعدد الجمعۃ وھذا الاثر صحیح ۔ صححہ ابن تیمیۃ منہاج السنۃ (رسائل الارکان ص۱۱۸، فتاویٰ اہلحدیث: ۲؍۳۵۱) ظاہر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے بطور مشغلہ کے اختیار نہیں کیا ہوگا بلکہ حالات کا اقتضا ہی ایسا ہوگا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ پہلے اگر متعدد جمعہ کی مثالیں نہیں ملتیں تو اس لیے نہیں کہ وہ جائز نہیں تھا بلکہ اصل بات یہ تھی کہ اس کے لیے کوئی داعیہ موجود نہ تھا ۔ اب اگر حالات ایسے پیدا ہوگئے ہیں تو ضرور ان کو ملحوظ رکھناچاہیے۔ ۲۔ تعداد افراد: اس کے لیے کچھ بزرگوں نے تعداد افراد کاذکر کیا ہے لیکن قرآن و حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ جن روایات میں واقعہ کےطور پر بعض جگہ اس کاذکر آیا ہے کہ وہاں شرکاء کی تعداد اتنی تھی۔ لیکن وہ ایک واقعہ کا ذکر ہے ، شرائط کانہیں ہے۔ اس کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ نماز باجماعت ہوسکے۔ زندگی میں جائیداد ورثاء میں تقسیم اور کسی وارث کو عاق کرنا:عنوان بالادو اہم مسائل پر مشتمل ہے ایک یہ کہ حین حیات کیاجائیداد کی تقسیم ورثہ کی تقسیم کی طرح کم و بیش ہونی چاہیے یا اس میں انصاف ضروری ہے ؟ دوسرا یہ کہ کیا کسی جائزوارث کو جائیداد سے محروم رکھنے کی وصیت کی جاسکتی ہے او راس پرعمل جائز ہوگا؟ زیربحث فتویٰ صرف دوسرے مسئلہ سے متعلق ہے او راسی سلسلہ میں شرعی رائے پیش کی گئی ہے۔ (مدیر)