کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 28
پر ایک جگہ یا دو جگہ یا کم و بیش کی قید نہیں لگائی، یہ بات بھی نہیں کہ :رب اسےبھول گیا ہو۔ قال اللّٰہ تعالیٰ ( اذا نودی للصلوٰۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللّٰہ وذروا البیع ذلکم خیرلکم) فلم یقل عزوجل: فی موضع ولا موضعین ولا اقل ولا اکثر ( وما کان ربک نسیا) (محلی ابن حزم؍۵۶) حضرت امام شافعی رحمہ اللہ (ف۲۰۰ھ؍۸۰۵ء) بغداد میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہاں دو یا تین جگہ پر جمعہ ہورہا ہے تو آپ نے انکار نہیں کیا تھا۔ واما بغداد ! فد خلھا الشافعی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ وھو یقیمون الجمعۃ فی موضعین وقیل فی ثلثۃ فلم ینکر الیھم (روضۃ الطالبین؍۵۔ امام نووی) بعض مصالح کی بنا پرایک شہر میں متعدد جگہ پر نماز جمعہ پڑھنے کی اجازت اسلاف سے مروی ہے حضرت عطاء بن ابی رباح سے (ف۱۱۴ھ) پوچھا گیا کہ اگر مسجد تنگ ہو تو دوسری جگہ جمعہ پڑھا جاسکتا ہے؟ فرمایا:ہاں! عن ابن جریج قال قلت لعطاء:ارأیت اھل البصرۃ لا یسعھم السجد الاکبر کیف یصنعون؟ قال لکل قومہ مسجد یجمعون فیہ ثم یجزی ذلک عنہم (مصنف عبدالرزاق؍۱۷۰) گو اس پر اعتراض کیا گیا مگر بغیردلیل۔ اصل بات یہ ہے کہ: ان کےذہن میں یہ بات آگئی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک جگہ، ایک سےزیادہ جمعہ منقول نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ کوئی نہیں بتا تا کہ کیا اس کی منع بھی آئی ہے؟ بات بالکل ظاہر ہے کہ ::منع منقول نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک وہ بھی حالات کااقتضاء تھا۔ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ :متعلقہ قصبہ میں، نماز جمعہ علاقہ کا حاکم ہی پڑھاتا تھا، یا کوئی عظیم رہنما، او رسب کا اس ایک شخص کے پاس جمع ہوجانا ایک قدرتی بات تھی، یہ بات نہ تھی کہ دوسری جگہ جمعہ جائز نہیں تھا بلکہ یہ تھی کہ حالات کا داعیہ ایسا تھا۔ اگر حالات اور وقت کی تبدیلی سے مقتضیات اور دواعی بدل جائیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ ان کا احترام نہ کیا جائے۔ وحدت جمعہ دراصل ’’ملی وحدت‘‘ کاتقاضا ہے ، اگر تعدد جمعات کسی ذہنی انتشار او رکوڑھ کانتیجہ نہیں ہے بلکہ مصالح کے اصرار کا حامل ہے تو یقین کیجئے ! ملی وحدت پر اس سے کوئی آنچ نہیں آتی۔ وحدت کامفہوم یہ نہیں ہے کہ: ظاہری طور پر انہیں ایک جگہ بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ جہاں ہوں ایک ہی مقصد ، ایک ہی منزل او رایک ہی پروگرام کے لیے یکسو ہوں۔