کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 27
ایک شہر میں متعدد جمعے ....... تعداد افراد بلجئیم سے جناب بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں: ۱۔میرے ساتھ ۵۰ کے قریب مسلمان طالب علم رہتے ہیں، جن میں سے بمشکل تین چار لڑکے نماز جمعہ کو جاتے ہیں، باقی حضرات عذر کرتے ہیں کہ ۲ بجے یونیورسٹی جانا ہوتاہے،واپسی پر دیر ہوجاتی ہے اور یہ بات کسی حد تک صحیح بھی ہے۔ جہاں جمعہ پڑھنےکو جاتے ہیں وہ کچھ دور پڑتا ہے،طلبہ کی سہولت کے لیےوہاں جانے کے بجائے اگر ہم یونیورسٹی کے قریب جمعہ کی نماز کا انتظام کرلیں تو کیا جائز ہے۔ کچھ لڑکے مصر ہیں کہ جمعہ کاالگ انتظام نہ کیا جائے، جمعہ ایک جگہ ہونا چاہیے۔ شرعاً کیا حکم ہے، ایک شہر میں متعدد جمعے جائز ہیں یا نہیں؟ ۲۔ جمعہ کی نماز کے لیے کیاکوئی تعداد بھی شرط ہے او روہ کیا ہے؟ (ملخصاً مورخہ ۲ فروری ۱۹۷۶ء بلجیئم) الجواب ۱۔ متعدد جمعے: اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر جمعہ ایک جگہ ہو تو سب سے بہتر اور افضل ہے۔ اگر حالات اور وقت کاتقاضا ہو تو ایک قصبہ یا شہر میں ایک سےزیادہ بھی جمعے پڑھے جاسکتے ہیں، حالات اور وقت کا اقتضا اگر وہ ہو، جیسا کہ آپ نے ذکر کیاہے تو راقم الحروف کے نزدیک ، دوسرے جمعے کا انتظام افضل ہی نہیں، دینی فریضہ بھی بن جاتاہے ورنہ سب گنہگار ہوں گے۔کیونکہ ایک جگہ جمعہ پڑھنے کے اصرار پراگر پچاس میں سے ۴۶ طلباء نماز جمعہ کے شرف بلکہ فرضیت کے تارک ہورہے ہیں تو یہ بات دینی لحاظ سے بہت سنگین ہے۔ جمعہ سے اصل غرض: مسلمانوں کی شوکت اور وحدت کو متشکل کرنا ، او رمسلمانوں کو ہفتہ وار تعلیم و تربیت کے مواقع مہیا کرنا ہے۔ اگرجمعہ کے متعدد اجتماعات،کسی فرقہ وارانہ ذہنیت کے پیداوار نہیں ہیں بلکہ بعض شرعی مصالح یا انتظامی قسم کی مقتضیات کانتیجہ ہیں جیسا کہ آپ کے حالات سے مترشح ہوتا ہے تو انہیں ملی انتشار سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت امام ابن حزم اندلسی (ف۴۵۶ھ؍۱۰۶۴ء)لکھتے ہیں کہ: حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: جب نماز جمعہ کی اذان ہوجائے تو اس میں شرکت کے لیے جلدی کرو، اللہ تعالیٰ نے اس موقع