کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 26
اس کی برکت سے محروم نہیں رہیں گے، اور یہ درد بالآخر ضرور رنگ لائے گا ، کیونکہ یہ سنت کا اتباع ہے فاتبعونی یحببکم اللّٰہ۔ سب سے بڑا فائدہ ذکر الہٰی کا یہ ہوتا ہے کہ اتناعرصہ شیطان اس سے پرے رہتا ہے فاذاذکر اللّٰہ خنس (بخاری تعلیقات) شیطان کے سائے کی نحوست سے دور ہونے کے بعد انسان کے اندر کی ملکوتی قوتیں بیدار ہونا شروع ہوجاتی ہیں، اس لیے اگر آپ چاہیں تو اس اثناء میں اس سے پائیدار روحانی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ یہ سنہری موقع ہوتا ہے۔ ۴۔ ذکر کے لیےوضو: ذکر الہٰی کے لیے ظاہری وضو شرط نہیں ہے لیکن اس کے آداب میں سے ضرور ہے، کیونکہ ’’ذکر الہٰی‘‘ اللہ کی معیت کے احساس کو مستلزم ہوتا ہے اس لیےممکن حد تک پاکیزہ رہنے کی کوشش کی جائے تو یہ باب عالی کے دربار کے شایان شان بات ہوتی ہے، کیونکہ احکم الحاکمین کے قرب کا احساس بھی ہو لیکن وہ طہارت کا اہتمام بھی نہ کرے؟ مشکل ہے۔ چونکہ ہر آن او رہر جگہ اس کے لیے طہارت کا التزام مشکل ہوتا ہے، اس لیےاس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اپنے آپ کو حرج میں ڈالے بغیر جتنا آسانی سے باوضو رہ سکتا ہے وہ باوضو رہنے کی کوشش کرے، جہاں معمولات میں زیادہ حرج کے واقع ہونے کااندیشہ ہو، وہاں اسے یونہی جاری رکھے۔ انشاء اللہ اب بھی اسے ویسا ہی اجر ملے گا ، جیسا کہ باوضو ذکر سےملتا رہا کیونکہ یہ سنت اللہ ہے کہ جب کسی شرعی عذر ( جیسے بیماری وغیرہ) کی بنا پر ایک شخص سے عمل صالح جیسی نیک عبادات چھوٹ جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں اسی کے نامہ اعمال میں ان کی عبادت لکھ دیتا ہے۔ اذا ابتلی السملم ببلاء فی بدۃ قیل للملک: اکتب لہ صالح عملہ الذی کان یعمل (شرح السنۃ، مشکوٰۃ ؍۱۳۶) ۵۔ عام ذکر بہتر ہے یا تلاوت قرآن: ہمارے نزدیک تمام اذکار کی بہ نسبت قرآن حکیم کی تلاوت افضل الذکر ہے۔ کیونکہ اس کے ایک ایک لفظ پر دس نیکیاں ، رب سے مناجات ، او راس کے ایک ایک لفظ کی دید و شنید پرثواب ملتا ہے۔ دوسرے اذکار کی یہ کیفیت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ: ایساذکر جس کو ’’کلام اللہ‘‘ بھی کہا جاسکتا ہو، وہ شرف صرف قرآن کریم کو حاصل ہے۔ دوسرے اذکار کو نہیں۔ قرآن حمید کی منفرد خصوصیت ایک یہ بھی ہےکہ: وہ ملت اسلامیہ بلکہ پوری نوع انسانی کے لیے ایک لازوال لائحہ عمل کا امین بھی ہے اور اس کے دنیوی اور اخروی مستقبل کاضامن بھی۔ رہے دوسرے اذکار؟ سو ان کا یہ مقام نہیں۔ ٭٭٭