کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 23
ہے اور شور کرکے مسجد میں کہرام برپاکرتا ہے تو ظاہر ہے اسلام اس کو بنظر استحسان نہیں دیکھے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اعتکاف کے دوران لوگوں کو اونچی آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے دیکھا تو فرمایا: تم سب اپنے اپنے رب سے ہمکلام ہو، اس لیے ایک دوسرے کو دُکھ نہ دیاکرو نہ ایک دوسرے سےبڑھ چڑھ کر قرأت کیاکرو۔ عن ابی سعید قال اعتکف رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فی المسجد فسمعتھم یجھرون بالقرأم فکشف السترو قال الا ان کلکو مناج ربہ فلا یوذین بعضکم بعض ولا یرفع بعضکم علی بعض فی القرأۃ اوقال الصلوٰۃ (ابوداد؍۱۳۳) بعض روایات میں یہ الفاظ آئے ہیں: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم خرج علی الناس وھم یصلون وقد اعلت اصواتھم بالقرأم فقال ان المصلی یناجی ربہ عزوجل فلینظر بما یناجیہ ولا یجھر بعضکم علی بعض بالقرآن ( اہل السنن کذا قال الحراقی و قال باسناد الصحیح) اصل فتنہ وہشور ہے جودوسرے عبادت گزاروں کی یکسوئی او رانہماک کا خون کرتا ہے، اس لیے اب بات مسجد تک محدود نہیں رہی، گھروں تک بھی چلی گئی ہے۔کیونکہ مسجدوں میں لاؤڈ سپیکر لگا کو جو تانیں چھوڑی جاتی ہیں، وہ گھروں میں بھی ذکر و فکر میں محویت کے انکانات کو شدیدنقصانات پہنچا رہی ہیں۔ اس لیے ہمارے نزدیک ذکر و فکر ہو یاتلاوت کی بات بہرحال ایسی اونچی آواز میں پڑھنا جو ذہنی تشویش پر منتج ہو، قطعاً جائز نہیں۔ خاص کر اوقات نماز میں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز بہ جماعت میں بھی کمزوروں او ربیماروں کا خیال رکھتے تھے کہ وہ تھک نہ جائیں یا ان کو تکلیف نہ ہو۔ عن ابی ہریرۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قال اذا صلی احد کم للناس فلیخفف فان فیھم الضعف والسقیم و الکبیر الحدیث (بخاری؍۹۷) مگر یہ لوگ خانہ خدا میں کھڑے ہوکر ’’حشر بردوش تانوں‘‘ کے ذریعے محلے بھر کے بیماروں ، کمزوروں ، مزدوروں اور بزرگوں کی جسمانی عافیتوں اور آرام پرجس طرح بجلی بن کر گر رہے ہیں وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ اس لیے خانہ خدا میں بالخصوص ’’اونچی آوازۃ‘‘ اونچے سروں او راونچی تانوں کے جو فتنے کھڑے ہوگئے ہیں، ہمارے نزدیک سراپا فتنہ ہیں، اس لیے جو لوگ عبادت میں میں اس صورت حال کی نزاکت کا