کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 19
بہت سی قوموں کو رفعت بخشتا ہے اور بہت سی دوسری اقوام کو پست کرتا ہے۔‘‘ یہ صرف ملّتِ اسلامیہ کی بات نہیں بلکہ پورے نوعِ انسانی کے مستقبل کی بات کی جا رہی ہے کہ: جو قومیں کتاب اللہ کا دامن تھام کر رکھیں گی وہ یقیناً بامِ اوج پر فائز ہو کر رہیں گی اور جو قومیں قرآن حکیم کے بجائے کسی دوسرے فکر و عمل کو اپنا دستور العمل بنائیں گی، وہ انسانیت کے مقامِ کبریٰ پر فائز نہیں رہیں گی، گو وہ بظاہر انسان نظر آئیں گے مگر وہ حیوان ہوں گے بلکہ ان سے بھی فروتر۔ جس معیارِ زندگی کو دنیا ترقی کے نام سے یاد کرتی ہے، وہ دراصل حیوانی درجہ ہے، انسانی نہیں ہے، اسلام کے نزدیک صحیح ترقی یہ ہے کہ: انسان، انسان رہ کر، دونوں جہان کے مکارمِ حیات میں ترقی کرے۔ اور جو لوگ اخروی مقاصد سے بے نیاز ہو کر صرف دنیا کی ٹھاٹھ باٹھ اور مادی وسائل کی حد تک تاثر یا پہنچ رہے ہیں، اسلام کی نگاہ میں، وہ ترقی نہیں ہے بلکہ یہ سمجھئے! کہ کسی سب سے بڑے سرکش حیوان کو اپنے اوپر مسلط کرنے کے لئے زمین کو ہموار کیا جا رہا ہے۔ اس لئے فرمایا: کہ پھر ان پر برے لوگ مسلّط ہو جائیں گے۔ بد مسلّط ہو جائیں گے: ۱۳۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِذَا مَشَتْ اُمَّتِیْ الْمُطَیْطِیَاءَ وَخَدَمَتْھُمْ اَبْنَاءُ الْمُلُوْکِ ابْنَاءُ فَارِسَ وَالرُّوْمِ سَلَّطَ اللّٰہُ شِرَادُھَا عَلٰی خِیَارِھَا (ترمذی) حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب میری اُمّت ناز و نخرے کے ساتھ مٹک مٹک کر چلے گی، اور فارس و روم کے بادشاہوں کی آل و اولاد ان کی خدمت گار بنیں گی، اس وقت اللہ تعالیٰ بروں کو نیک لوگوں پر مسلط کر دے گا۔‘‘ کیونکہ جب نفس و طاغوت کی خدمت، عیش و آرام اور ناز نخرے کی زندگی ہی معراج ٹھہری تو پھر اس باب میں جو سب سے بڑا شاطر ہو گا، وہی ان پر مسلّط بھی ہو گا، جو ان کی خدمت نہیں کرے گا بلکہ انہیں اپنی ذات کے لئے استعمال بھی کرے گا، پالے گا بھی تو یں جیسے قصاب بکرے اور چھترے کو پالتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے