کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 17
بنتا اور بگڑتا ہے۔
ملت اسلامیہ کے جتنے اہم مسائل ہیں، امامتِ قوم کا مسئلہ ان سب سے سرِ فہرست ہے: ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں، اُمّتِ مسلمہ اگر یہ مسئلہ اپنی روایات کے شایانِ شان حل کر لیتی ہے تو پھر اس کے بد اس کا اور کوئی بھی مسئلہ لا ینحل نہیں رہتا، ورنہ پوری قوم لا ینحل مسائل کے لحاظ سے ’’مسائلستان‘‘ بن کر رہ جاتی ہے۔
اس سلسلے میں آپ نے اپنی پیغمبرانہ بصیرت کی بنا پر جس اندیشے کا اظہار فرمایا تھا، وہ آج حرف بحرف ثابت ہو گیا ہے۔ مدتِ مدید سے غلط کار، برخود غلط، بے دین، بدعمل، کج بین، کجرو اور ملّی مزاج کے لحاظ سے ’’ناہل‘‘ سیاسی کھلنڈرے اور حکمران پورے عالم اسلام پر مسلط ہیں، اور اس پر طرّہ یہ کہ ان سے خلاصی پانے کے لئے ملتِ اسلامیہ کے سواد اعظم کے دل میں ابھی تک کوئی تحریک بھی پیدا نہیں ہوئی اور نہ وہ اس سلسلے کی سنجیدہ کوششوں سے کوئی مناسب دلچسپی لے رہا ہے۔ اس لئے اس کا مستقبل بھی موہوم سا ہو کر رہ گیا ہے۔
قبیلہ حمس کی زینب نامی ایک خاتون نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ:
ہم اس صالح نظام پر، جس کو جاہلیت کے بعد اللہ نے ہمیں نصیب کیا ہے، کب تک قائم رہیں گے؟
فرمایا: جب تک تمہارے امام (سیاسی رہنما، حکمران) سیدھے رہیں گے، اس وقت تک تم بھی اس پر قائم رہو گے۔
پھر عرض کی: امام کسے کہتے ہیں؟
فرمایا: کیا تمہاری قوم کے سردار اور معزز لوگ نہیں ہیں؟ وہ جو حکم دیتے ہیں، لوگ ان کی اطاعت کرتے ہیں؟
کہنے لگی: ہاں!
فرمایا: یہی لوگوں کے حاکم ہیں۔
مَا بَقَاءُنَا عَلٰی ھٰذَا الْاَمْرِ الصَّالِحِ جَآءَ اللّٰہُ بَعْدَ الْجَاھِلِیَّۃِ؟ قَالَ: بَقَاءُکُمْ عَلَیْہِ مَا اسْتَقَامَتْ بِکُمْ اَئِمَّتُکُمْ قَالَتْ وَمَا الْاَئِمَّۃُ؟ قَالَ اَوَ مَا کَانَ لِقَوْمِکَ رَؤُسٌ وَاَشْرَافٌ یَّاْمُرُوْنَھُمْ فَیُطِیْعُوْنَھُمْ قَالَتْ بَلٰی! قَال فَھُمْ اُوْلٰئِکَ عَلَی النَّاسِ (بخاری باب ایام الجاھلیۃ)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سیاسی حکمرانوں، اشراف اور ذمہ دار لوگوں کے بارے میں بڑے پتے کی بات کہی ہے: