کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 15
ہم نے ’’سمع اور طاعت‘‘ کے معاہدہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔ اور اس شرط پر کہ، جو لوگ ’’امامت‘‘ کے اہل ہیں، ان سے اسے چھیننے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اہلیت ’’دینداری اور مفوضہ ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت‘‘ کا نام ہے۔ ایسے لوگوں کو منصب سے اتارنے کی کوشش کرنا، مسلمانی نہیں، ننگ مسلمانی ہے، باقی رہے ہما شما؟ تو پارلیمانی طریقہ سے ان کو بدلنا ہی بہت ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کا اقتدار بالاخر عذاب کا سبب بن جاتا ہے اور ان ناہنجاروں کی بدولت ملک و ملت اور دین کا جتنا حرج اور نقصان ہو گا، ان سب کا پوری قوم سے محاسبہ ہو گا۔ ۹۔ عن ابی ھریرۃ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال بینما النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی المجلس یحدث القوم جاءہ اعرابی فقال متی الساعۃ؟..... قال فاذا ضیعت الامانۃ فانتظر الساعۃ، فقال: کیف اضاعتھا؟ قال اذا وسد الامر الی غیر اھلہ فانتظر الساعۃ (الصحیح للبخاری) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ: ایک دفعہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے باتیں کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی شخص آگیا، اور کہا: حضور! قیامت کب ہے؟ فرمایا: جب امانت ضائع ہو جائے تو قیامت کا انتظار کیجیے: اس پر اس نے پوچھا: (حضور!) اس کا ضائع ہونا کس طرح ہے؟ فرمایا: جب حکومت نا اہلوں کے سپرد کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کیجیے: (بس اب وہ آنے والی ہے) حضرت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک امانت سے مراد حکومت ہے اور اھلھا سے ’’حکمران‘‘ اور اولی الامر (آیت واولی الامر منکم) سے جیوش اور دوسرے شعبوں کے حکام مراد ہیں۔